Wednesday, September 7, 2016

इन्सान और बंदर में कोई रिश्ता नहीं ( HUMAN GENOME PROJECT)


ہیومن جینوم پرو جیکٹ


آج انسانی جین کی نقشہ کشی مکمل ہونے پر ثابت ہو گیا ہے کہ انسان اور بندر میں کوئی رشتہ نہیں ہے. ہمیشہ کی طرح اب بھی نظریہ ارتقا کے ماننے والے (ارتقا پرست) اس سائنسی ترقی کو بھی اپنے مقصد کے تحت استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.
جیسا کہ سب جانتے ہیں، حال ہی میں ہیومن جینوم پروجیکٹ کے تحت انسانی جین کی نقشہ کشی کی تکمیل انسانی تاریخ میں ایک بہت ہی اہم سائنسی دریافت ہے. تاہم ارتقا پرستوں (Evolutionists) کی بعض تحریروں میں اس پروجیکٹ کے نتائج کو غلط رنگ دیا جا رہا ہے. دعویٰ یہ کیا جارہا ہے کہ چیمپینزی او ر انسان کے جین میں 98 فی صد یکسانیت پائی جاتی ہے اور اس بات کو انسان اور چیمپینزی کے درمیان مماثلت اور نظریہ ارتقا کی تصدیق کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے. درحقیقت یہ ایک بے بنیاد دلیل ہے اور ارتقا رست اس موضوع پر عام افراد کی معلومات کی کمی کی وجہ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں.
اٹھانوے فی صد مماثلت ایک جھوٹا پروپیگنڈا ہے
سب سے پہلے تو 98 فی صد یکسانیت کے نظرئیے کو واضح کر دینا چاہیے کہ جو انسان اور چیمپینزی کے ڈی این اے کے حوالے سے ارتقا پرستوں نے پھیلایا ہے. ہونا یہ چاہیے تھا کہ انسان اور چیمپینزی کی جینیاتی بناوٹ کے درمیان 98 فی صد مماثلت کے حوالے سے کوئی دعویٰ کرتے ہوئے انسانی جینوم کی طرح چیمپینزی کے جینوم کی بھی نقشہ کشی کی جاتی او رپھر دونوں کے جینوم کا موازنہ کیا جاتا. اس موازنے کے نتائج کا مطالعہ کیا جاتا. جبکہ ایساکوئی مطالعہ دستیاب نہیں ہے، کیونکہ اب تک صرف انسانی جین کی نقشہ کشی کی گئی ہے. چیمپینزی کے لیے اب تک ایسی کوئی تحقیق نہیں کی گئی.
حقیقت یہ ہے کہ انسان اور بندر کے جین کے درمیان 98 فی صد مماثلت جو ایک اہم موضوع بن چکا ہے، ایک غلط پروپیگنڈا ہے جو آج سے برسوں پہلے تیار کر لیا گیا تھا. دراصل انسان اور چیمپینزی میں پائی جانے والی تیس چالیس بنیادی پروٹینز کے امائنو ایسڈز کے سلسلوں (Sequences) کے درمیان پائی جانے والی مماثلت کی بنیاد پر یہ پروپیگنڈا تیار کیا گیا اور غیر معمولی مبالغہ آمیزی کے ساتھ اس مماثلت کو بیان کیا گیا. اس سلسلے کا تجزیہ "ڈی این اے ہائبریڈائزیشن" (DNA hybridization) نامی طریقے سے کیا گیا ہے. اگرچہ اس طریقے میں پروٹین کا تجزیہ شامل ہے، لیکن اس میں محدود پیمانے پر پروٹینز کا موازنہ کیا گیا ہے. جبکہ ابھی ایک لاکھ جین باقی ہیں، گویا انسان میں ان جینز میں ایک لاکھ پروٹینز کوڈ ہیں. چونکہ ایک لاکھ پروٹینز میں سے صرف چالیس میں مماثلت پائی جاتی ہے، اس لیے اس دعوے کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے کہ انسان اور بندر کے 98 فی صد جینز یکساں ہیں.
دوسری جانب ان چالیس پروٹینز پر مشتمل "ڈی این اے کا موازنہ" (DNA comparison) بھی متنازعہ ہے. یہ موازنہ 1987ء میں دو ماہرین حیاتیات سبلے (Sibley) اور آلکیسٹ (Ahlquist) نے تیار کیا تھا اور "مالیکیولر ایوولوشن" (Molecular Evolution) نامی جریدے میں شائع ہوا تھا. تاہم بعد میں سارخ (Sarich) نامی ایک اور سائنس داں نے مذکورہ بالا سائنس دانوں کی معلومات کو جانچا اور کہا کہ ان دونوں نے اس دوران جو طریقہ اختیار کیا اس کا معیار متنازعہ ہے اور نتائج میں مبالغہ آرائی کی گئی ہے. (Sarich et al,1989, Cladisticts, 5:3-32). ایک اور ماہر حیاتیات ڈاکٹر ڈون بیٹن نے بھی 1996ء میں اس معاملے کا تجزیہ کیا اور کہا کہ اصل مماثلت 98 فی صد نہیں، 2ء96 فی صد ہے.
انسان کا ڈی این اے کیڑے، مچھر اور مرغی سے بھی مماثل ہے
اوپر ذکر کردہ بنیادی پروٹین کئی دیگر جان داروں میں بھی موجود ہے. انسان میں پائے جانے والی والی پروٹین صرف چیمپینزی ہی میں نہیں، بہت سی بالکل مختلف انواع میں بھی پائی جاتی ہے. مثال کے طور پر ہفتہ روزہ "نیو سائنٹسٹ" میں شائع ہونے والے ایک جینیاتی تجزئیے سے انکشاف ہوا کہ نیماٹوڈی حشرات (Nematode Worms) اور انسان کے ڈی این اے کے مابین 75 فی صد مماثلت پائی جاتی ہے. (نیوسائنٹسٹ، 15 مئی 1999ء، صفحہ 27) اس کا یقیناًیہ مطلب نہیں ہے کہ انسان اور ان حشرات میں صرف 25 فی صد فرق پایا جاتا ہے. ارتقا پرستوں کے تیار کردہ " شجرۂ نسب" (فیملی ٹری) کے مطابق کور ڈاٹا فائیلم( Chordata Phylum236جس میں انسان شامل ہے ) اور نیما ٹوڈا فائیلم گروپ کے جان دار آج سے 530 ملین سال پہلے بھی ایک دوسرے سے مختلف تھے.
دوسری جانب ایک اور سائنسی مطالعے کے مطابق، پھل مکھی (فروٹ فلائی236 جو ڈروسوفیلا قسم کے جان داروں میں شمار ہوتی ہے ) اور انسانی جینز میں 60 فی صد مماثلت پائی جاتی ہے.
مختلف جان داروں کی پروٹینز پر کیے گئے تجزیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر انسان سے مختلف ہونے کے باوجود ان کے پروٹینز انسانی پروٹین سے بہت مشابہ ہیں. کیمبرج یونیورسٹی کے محققین نے سطح زمین پر بسنے والے جانوروں کی پروٹین کا موازنہ کیا. حیران کن طور پر ان تمام نمونوں میں سے مرغی او رانسان کے نمونوں کو انتہائی قریب پایا گیا. اس کے بعد دوسرا قریبی نمونہ "مگر مچھ" کا تھا. (نیو سائنٹسٹ، 16 ؍ اگست1984ء، صفحہ 19)
انسان اور بندر کے درمیان مماثلت ثابت کرنے کے لیے ارتقا پرست چیمپینزی اور گوریلا کے 48 کروموسوم اور انسان کے 46 کروموسوم کی دلیل پیش کرتے ہیں. ارتقا پرست دونوں جنسوں کے درمیان کروموسوم کی تقریباً یکساں تعداد کو ان دونوں کے درمیان ارتقائی رشتے کی علامت کے طور پر بیان کرتے ہیں. لیکن اگر ارتقا پرستوں کی اس منطق کو درست مان لیا جائے تو پھر انسان کا چیمپینزی سے بھی زیادہ قریبی رشتہ "ٹماٹر" سے ہونا چاہیے، کیونکہ ٹماٹر میں کروموسوم کی تعداد انسان میں کروموسوم کی تعداد کے بالکل برابر ہوتی ہے یعنی چھیالیس!
جینیاتی مماثلت یا یکسانیت کا خیال، نظریہ ارتقا کی شہادت نہیں دیتا. او ر اس کی وجہ یہ ہے کہ جینیاتی مماثلتیں ارتقائی ضابطے (ایوولوشن اسکیم) سے تعلق نہیں رکھتیں (جیسا کہ ظاہر کیا جا رہا ہے) اور بالکل الٹ نتائج سامنے آ رہے ہیں.
جینیاتی مماثلتیں "ارتقائی ضابطہ" کو غلط ثابت کرتی ہیں جب اس حوالے سے مجموعی طورپر غور کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ "حیاتی کیمیائی مماثلتوں" کا موضوع ارتقا کے شواہد میں سے نہیں ہے بلکہ یہ موضوع تو نظریہ ارتقا کو ایک لغزش قراردیتا ہے. ڈاکٹر کرسچین شوابے (ساؤتھ کیرولینا یونیورسٹی کے میڈیکل فیکلٹی میں حیاتی کیمیا کے محقق) ایک ارتقا پرست سائنس داں ہیں جنہوں نے سالموں میں ارتقا کے شواہد تلاش کرنے کے لیے کئی برس صرف کیے ہیں. انہوں نے خاص طور پر انسولین اور ریلیکسن ٹائپ پروٹینز (Relaxin-type Proteins) پر تحقیق کی ہے اور مختلف جان داروں کے درمیان ارتقائی رشتہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے. تاہم انہیں کئی بار اس کا اعتراف کرنا پڑا کہ وہ اپنی تحقیق کے دوران کبھی بھی ارتقا کے شواہد حاصل نہیں کر سکے. جریدہ "سائنس میگزین" میں شائع شدہ ایک مضمون میں انہوں نے کہا:
"Molecular evolution is about to be accepted as a method superior to palaeontology for the discovery of evolutionary relationships. As a molecular evolutionist I should be elated. Instead it seems disconcerting that many exceptions exist to the orderly progression of species as determined by molecular homologies; so many in fact that I think the exception, the quirks, may carry the more important message" (Christian Schwabe 'On the Validity of Molecular Evolution', Trends in Biochemical Sciences. V.11, July 1986)
سالماتی حیاتیات میں ہونے والی نئی دریافتوں کی بنیاد پر ایک ممتاز حیاتی کیمیا داں پروفیسر مائیکل ڈینٹن کا اس ضمن میں خیا ل ہے کہ:
"Each class at molecular level is unique, isolated and unlinked by intermediates. Thus,molecules like fossils, have failed to provide the elusive intermediates so long sought by evolutionary biology... At a molecular level, no organism is 'ancestral' or 'primitive' or 'advanced' compared with its relatives... There is little doubt that if this molecular evidence had been available a century avo... the idea of organic evolution might never been accepted." (Michael Denton, Evolution; A Theory in Crisis, London; Burnett Books 1985 pp.290-291)
مماثلتیں ارتقا کا نہیں، تخلیق کا ثبوت ہیں
انسانی جسم کا کسی دوسری جان دار نوع سے سالماتی مماثلت رکھنا ایک بالکل قدرتی عمل ہے، کیونکہ یہ سب ایک جیسے سالموں سے بنائے گئے ہیں، یہ سب ایک ہی پانی اور فضا استعمال کرتے ہیں اور ایک جیسے سالموں پر مشتمل غذائیں استعمال کرتے ہیں. چنانچہ ان کے نظام ہائے استحالہ (میٹابولزم) اور جینیاتی بناوٹیں ایک دوسرے سے مشابہ ہیں. تاہم اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان تمام انواع (انسان اور حیوان) کا جدِ امجد ایک ہی تھا. یہ "یکساں مادہ" ارتقا کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ ان کا "یکساں ڈیزائن" ہے، گویا ان سب کو ایک ہی منصوبے کے تحت تخلیق کیا گیا ہے.
اس موضوع کو ایک مثال سے واضح کرنا ممکن ہے: دنیا میں تمام عمارات ایک جیسے مادے (اینٹ، پتھر، لوہا، سیمنٹ وغیرہ) سے تعمیر کی جاتی ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب یہ نہیں کہ تمام عمارتیں ایک دوسرے سے ارتقا پذیر ہوئی ہیں. وہ تمام علیحدہ علیحدہ، مگر یکساں مادے سے تیار کی گئی ہیں. یہی بات جان داروں (انسانوں اور حیوانوں ) کے لیے بھی درست ہے.
یہ زندگی ایک غیر شعوری، غیر منصوبہ بند سلسلہ عوامل کا نتیجہ نہیں، جیسا کہ ارتقا پرست دعویٰ کرتے ہیں. بلکہ خالق عظیم اللہ عز و جل کی تخلیق کا نتیجہ ہے جو لامحدود علم اور حکمت کا مالک ہے.
10- جینیاتی تبدّل ہمیشہ تخریبی ہوتا ہے
اِرتقاء کے حامیوں کے نزدیک اِرتقاء کا عمل تبدّل یعنی جینیاتی خصوصیات میں تبدیلی کے ذریعے وُقوع پذیر ہوا. یہ دعویٰ بھی صحیح معنوں میں حقیقت کو مسخ کرنے کے مُترادف ہے. (اصل حقیقت یہ ہے کہ) تبدّل کبھی بھی تعمیری نہیں ہوتا بلکہ (ہمیشہ) تخریبی ہی ہوتا ہے. تبدّل کو دریافت کرنے والے سائنسدان ملّر (Muller) کے تجربات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تعمیری جینیاتی تبدیلی کا (حقیقت میں ) کوئی وُجود نہیں، جینیاتی تبدیلی ہمیشہ تخریبی ہی ہوتی ہے. اِس سلسلے میں کئے جانے والے تجربات میں بھی یہ حقیقت اِسی طرح عیاں ہوئی کہ (جینیاتی) خصوصیات تبدیل نہیں ہوا کرتیں بلکہ تباہ ہوا کرتی ہیں. جس کا نتیجہ کینسر یا موت کی صورت میں ظاہر ہوا کرتا ہے. یا پھر بگڑنے والی خصوصیات پہلے سے کمزور جسیمے کی تخلیق کا باعث بنتی ہیں (جیسا کہ ملّر کی سبز آنکھوں والی مکھی) آج تک کئے گئے ہزارہا تجربات کے باوُجود کوئی بھی کسی جسیمے میں ہونے والے (مثبت) تبدّل سے نیا جسیمہ حاصل نہیں کر سکا. جبکہ دُوسری طرف ہڈی کے گودے میں واقع ایک پِدری خلئے کے ذریعے ہر سیکنڈ میں لاکھوں کی تِعداد میں مختلف نئے خلئے پیدا ہوتے رہتے ہیں. اگر تبدّل (کے اَفسانے ) میں ذرا بھی حقیقت ہوتی تو اب تک یہ عجوبہ قطعی طور پر ثابت ہو چکا ہوتا.
کاپی کیا گیا مضمون

Friday, September 2, 2016

KYA SURAJ,CHASHME ME GRUB HOTA HAI ?


اسلام پر وارد شدہ بے بنیاد اعتراضات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسلام مسلمہ سائنسی حقائق کے خلاف نظریات بیان کرتا ہے۔ بطورِ مثال یہ کہ قرآن میں ذکر ہے کہ سورج ایک چشمہ میں غروب ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ قرآن کو پوری طرح نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ سائنسی نظریات کی "مسلمہ حیثیت" کی حقیقت اور ان کے قبول و رد کے معیار سے قطع نظر، جس آیت پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے، اگر اسے ہی درست طور پر سمجھ لیا جاتا تو انصاف پسندانہ ذہنیت کیلئے اعتراض کی کوئی نوبت ہی نہ آتی۔
 آیئے، پوری آیت ملاظہ فرمایئے؛

حتى إذا بلغ مغرب الشمس وجدها تغرب في عين حمئة ووجد عندها قوما قلنا يا ذا القرنين إما أن تعذب وإما أن تتخذ فيهم حسنا (الکہف 86)۔

یہاں تک کہ جب وہ (ذوالقرنین) غروب آفتاب کے موقع پر پہنچے تو اسے ایک سیاہ چشمہ میں ڈوبتا ہوا پایا، اور وہاں پر انہیں ایک قوم بھی ملی۔ ہم نے کہا کہ اے ذو القرنین،یا تو تُو انہیں سزا دے گا یا پھر ان پر نرم رویہ اختیار کرے گا۔
قرآن کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں ہیں کہ یہ ذو القرنین کی حسیات تھیں، جنھوں نے سورج کو سیاہ گرم چشمہ میں ڈوبتا ہوا محسوس کیا اور قرآن نے بغیر تصدیق و تکذیب کے اسے نقل کیا۔ اور یہ کوئی اچنبھا نہیں ہے ،بلکہ روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ ایک ہی دن میں کئی آدمی اسے پہاڑ پیچھے، کئی زمین میں، کئی سمندر میں ڈوبتا ہوا دیکھتے ہیں۔ اگر ذو القرنین نے اسے سیاہ چشمہ میں ڈوبتا ہوا دیکھ لیا، تو کیا حرج ہے؟ اور یہ بھی قطعاً ضروری نہیں کہ ذو القرنین اس کے چشمہ میں ہی غروب ہونے پر یقین رکھتے ہوں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا انھوں نے اس سے پہلے سورج غروب ہوتا ہوا نہیں دیکھا ہو گا؟ اگر دیکھا ہو تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ سورج کے زمین، پہاڑ یا سمندر وغیرہ میں غروب ہونے پر یقین رکھتے تھے؟ اگر نہیں تو یہاں یہ عقیدہ کیسے ان کے ذمے لگا سکتے ہیں؟

اگر کوئی کہے کہ قرآن اگر اس غلط نظریے پر یقین نہیں رکھتا تھا تو اس کی تکذیب کر کے صحیح نظریہ کیوں نہیں پیش کیا؟ تو عرض ہے کہ
اولاً تسلیم شد کہ قرآن کا موضوع سائنس نہیں، بلکہ انسان اور اس کی نجات ہے۔ لہذا اگر قرآن کوئی سائنسی نظریہ پیش نہیں کرتا، یا کسی حوالے سے پیش کر کے اس کی تصدیق یا تکذیب نہیں کرتا تو یہ قدغن لازم نہیں کہ قرآن نے اپنے موضوع کو تشنہ چھوڑا ہے۔
ثانیاً، یہ بھی کوئی دانشمندانہ اقدام نہ ہوتا کہ قرآن اپنے زمانے سے پانچ سو یا ہزار سال بعد کے ترقی یافتہ زمانے کے نظریات اسی زمانے کے لوگوں کو قبول کرنے پر مجبور کرتا کہ عقول جن کے تسلیم کرنے پر ابھی بالکل تیار نہ تھیں۔ بلکہ یہ قرآن پر ایک مستقل اعتراض بن جاتا جو اس کی مقبولیت میں حائل ہو جاتا۔ قرآن میں وارد شدہ سائنسی حقائق ایسے لطیف پیرائے میں بیان کئے گئے ہیں کہ زمانہ نزولِ قرآن کے لوگوں کیلئے اس کے عقلی انکار کی کوئی گنجائش نہ تھی،اگرچہ ان کی دریافت بعد میں ہوئی۔
ثالثاً،قرآن نے غروبِِ شمس کے ذو القرنینی مشاہدہ کی تصدیق و تکذیب کی بجائے ایک اور انداز اختیار کیا جو نہ صرف اس زمانہ کی عقلی و علمی سطح کے مطابق تھا، بلکہ قرونِ آخر کی علمی و عقلی ترقی اور سائنسی دریافتوں پر بھی پورا اترتا ہے۔ اللہ نے فرمایا؛
وهو الذي خلق الليل والنهار والشمس والقمر كل في فلك يسبحون (الانبیاء 33)۔
اور اللہ تو وہ ذات ہے، جس نے رات اوردن، سورج اور چاند کو پیدا فرمایا۔ ہر کوئی اپنے مدار میں تیر رہا ہے۔
"فلک" کہتے ہیں ستاروں کے مدار کو۔(لسان العرب 478/10)۔ "یسبحون" کا مصدر "السبح والسباحۃ" ہے،جس کا مطلب ہے تیرنا یا تیراکی۔(لسان العرب 470/2)۔ لہذا قرآن کے 
مطابق لیل و نہار، (یعنی زمین، کہ جس کی محوری گردش سے ہی دن اور رات وجود پذیر ہوتے ہیں اور یہ قرآن کا کمال ہے کہ اسے براہِ راست زمین کی گردش قرار نہیں دیا کہ اس زمانہ کی عقول اس حقیقت کو سمجھنے سے عاری تھیں)، سورج اور چاند اپنے اپنے مدار میں محوِ گردش ہیں۔ اب اگرقرآن اس نظریے کو درست سمجھتا کہ سورج زمین سے ہی نکلتا اور اسی کے کسی چشمہ میں ڈوب جاتا ہے تو مدار کی گردش کا ذکر نہ کرتا کہ اس صورت میں مداری گردش ممکن ہی نہیں رہتی۔ موجودہ سائنسی نظریات کے مطابق اگرچہ سورج کا یہ مدا زمین کے گرد نہیں، بلکہ کہکشاں کے گرد ہے،مگر مداری گردش ممکن ہی تب ہے جب سورج نہ کسی چیز سے نکلتا ہو اور نہ ہی کسی چیز میں ڈوبتا ہو۔لہذا قرآن نے اس پہلو کو بھی تشنہ نہیں چھوڑا بلکہ براہِ راست تکذیب کی بجائے ایک عقل کو اپیل کرتانظریہ دے کر دعوتِ تحقیق دی ہے اور پھر بعد از تحقیق یہ نظریہ درست ثابت ہوا۔ فللہ الحمد۔
رابعاً، اسی آیت کے اگلے الفاظ یہ ہیں؛
۔۔۔ووجد عندها قوما۔۔۔ 
یعنی اسی چشمہ کے قریب ذوالقرنین کو ایک قوم ملی۔سوال یہ ہے کہ سورج کی گرمی کی وجہ سے وہ قوم جل کیوں نہ گئی؟ بلکہ چشمہ کا پانی بخارات بن کر اڑ کیوں نہ گیا؟ حالانکہ سورج کی تپش کا ذکر خود قرآن میں موجود ہے؛
وجعلنا سِراجاً وهَّاجاً (النبا 13)۔اور ہم نے شدید حرارت و تپش والا چراغ بنایا۔
آیئے قرآن سے ہی پوچھتے ہیں کہ یہ چراغ ہے کیا؟ تو اللہ نے فرمایا؛
وجعل الشمس سراجا (نوح 16)۔اور اس اللہ نے سورج کو چراغ بنایا۔
والسِّراجُ المصباح الزاهر الذي يُسْرَجُ بالليل والجمع سُرُجٌ والمِسْرَجَةُ التي فيها الفتيل (لسان العرب 297/2)۔"سراج" کہتے ہیں چراغ کو،جو رات کو جلایا جاتا ہے۔اسکی جمع "سُرُجٌ" ہے۔ مسرجہ وہ چراغ ہے، جس میں جلنے کیلئے بتی (دھاگہ) ہوتا ہے۔يوم وَهِجٌ ووَهْجانٌ شديد الحر (لسان العرب 401/2)۔"یوم وھج" کہتے ہیں شدید گرم دن کووالتَّوَهُّجُ حرارة الشمس والنار من بعيد (ایضاً)۔"توھج" کہتے ہیں سورج یا آگ کی اس حرارت کو، جو دور سے محسوس ہوتی ہے۔
مندرجہ بالا تصریحاتِ لغویہ سے پتہ چلا کہ قرآن کی رو سے؛

1۔ سورج ایک آگ کاجلتا ہوا چراغ ہے۔
2۔ اس کی حرارت و تپش بہت شدید ہے۔
3۔ یہ حرارت دور سے ہی محسوس ہوتی ہے۔
پھر روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ موسلادھار بارش کے بعد بھی اگر دھوپ نکل آئے تو چند ہی منٹوں میں بارش کا پانی اڑا دیتی ہے، مگر یہاں پورے کا پورا سورج چشمہ میں ڈوب جاتا ہے،مگر پانی بخارات نہیں بنتا،نہ ہی اس چشمہ کے قریب رہنے والوں پر ہی کچھ اثر ہوتا ہے۔ تو پتہ چلا کہ قرآن کا منشا ہر گز یہ نہیں ہے کہ سورج پانی میں ڈوبتا ہے،بلکہ وہ تو سورج کو آگ قرار دیتا ہے،جس کی حرارت بہت شدید ہے اور دور سے ہی محسوس ہوتی ہے۔ ہاں ذوالقرنین کا تخیل ہو تو ہو اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ چشمہ کے اس پار سورج غروب ہو رہا ہے، جیسا کہ کوہستانی علاقہ میں محسوس ہوتا ہے کہ فلاں پہاڑ کے اس پار سورج غروب ہو رہا ہے۔
خامساً، آگے اللہ نے فرمایا ہے؛
ثم أتبع سببا حتى إذا بلغ مطلع الشمس وجدها تطلع على قوم لم نجعل لهم من دونها سترا (الکہف 89،90)۔
پھر وہ اور راہ پر چلا۔حتی کہ سورج نکلنے کے جگہ پر آ پہنچا۔ تو اس نے اسے ایسی قوم پر طلوع ہوتا ہوا پایا کہ جن کیلئے ہم نے اس سے اور کوئی اوٹ نہیں بنائی تھی۔
اب بتایا جائے کہ کیا قرآن کا منشا یہ ہے کہ سورج ان لوگوں کے درمیان سے طلوع ہوتا تھا؟ یا اس قوم کے اندر سے باہر نکلتا تھا؟ حالانکہ اسمِ ظرف دونوں جگہ ایک جیسے ہیں، یعنی " مغرب و مطلع" (غروب ہونے کی جگہ، طلوع ہونے کی جگہ)۔ اگر غروب زمین کے چشمہ میں ہوتا ہے تو طلوع زمین کے اندر اس قوم کے درمیان سے کیوں نہیں ہو سکتا؟
سادساً، قرآن کے مطابق سورج آسمان میں ہے،زمین پر نہیں؛
تبارك الذي جعل في السماء بروجا وجعل فيها سراجا وقمرا منيرا (الفرقان 61)۔
با برکت ہے وہ ذات، جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں چراغ (سورج) اور روشن چاند بنایا۔
اور یہ مسلم ہے کہ بعد از مرحلہ تخلیق، زمین و آسمان ملے ہوئے نہیں ہیں۔ بلکہ ان کے درمیان فاصلہ ہے۔ اجرامِ فلکی کے متعلق قرآن نے یہ اصول بتایا ہے کہ یہ نہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں نہ ٹکراتے ہیں، بلکہ اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔ (یس 40)۔ اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ سورج صرف آسمان میں ہی ہے،زمین پر نہیں اترتا۔یہ مشاہدہ صرف ذوالقرنین کا تھا کہ سورج سیاہ گرم چشمہ میں غروب ہو رہا ہے اور قرآن نے اسے بلا تصدیق و تکذیب نقل کیا ہے۔
سابعاً یہ کہ قرآن، مشارق و مغارب، یعنی ایک سے زیادہ مشرقوں اور مغربوں کا ذکر کرتا ہے؛۔
فلا أقسم برب المشارق والمغارب إنا لقادرون (المعارج 40)۔
تو مشرقوں اور مغربوں کے رب کی قسم، یقیناً ہم واقعی قدرت رکھنے والے ہیں۔
اگر ایک اسی جگہ یا اسی چشمہ میں غروب ہوتا ہے، تو ایک سے زیادہ مشرقوں اور مغربوں کا ذکر باطل ہے۔
کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم موجودہ زمانے میں قرآن کی یہ تاویل کرنے پر مجبور ہیں۔ بلکہ ہمارے اسلاف بھی شروع ہی سے مذکورہ بالا آیت کا معنی "چشمہ کے اندر غروب ہونے " کا انکار کرتے آئےہیں اور وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد ہے کہ ذو القرنین اس مقام پر پہنچ گئے، جہاں پر اس زمانے کی معلومات کے مطابق زمین ختم ہو جاتی تھی اور سمندر شروع ہو جاتا تھا۔ اس سے آگے نہ کوئی عمارت تھی نہ آبادی۔ لہذا ذو القرنین کو یوں محسوس ہوا کہ اس سے آگے صرف سورج ہی غروب ہوتا ہو گا اور کچھ بھی نہیں۔ اور جس چشمہ یا سمندر کے پار یہاں سورج غروب ہو رہا تھا،اس کی مٹی کا رنگ کالا اور پانی (سورج کی شعاعوں کے انعکاس کی وجہ سے) گرم محسوس ہو رہا تھا۔ ان اسلاف میں سے چند ایک کے نام ہم آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں؛
1۔ امام ابو جعفر النحاس المحاربیؒ، المتوفی 245ھ (معانی القرآن 286/4)۔
2۔ أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوريؒ، المتوفی 276ھ (الانواء فی مواسم العرب 141/1)۔
3۔ امام طحاویؒ، المتوفی 321ھ (شرح مشکل الآثار 254/1)۔
4۔ امام أبو سليمان حمد بن محمد الخطابيؒ، المتوفی 388ھ (اعلام الحدیث 1894/3)۔
5۔ امام قفال المروزیؒ، المتوفی 417ھ و امام قرطبیؒ ،المتوفی 671ھ (تفسیر القرطبی 48/11)۔
6۔امام ابنِ حزمؒ، المتوفی 456ھ (الفصل فی الملل والنحل 82/2)۔
7۔ علامہ أبو الوفاء علي بن عقيل البغدادي المعروف بہ ابنِ عقیلؒ، المتوفی 513ھ (المنتظم فی التاریخ 36/1)۔
8۔امام ابو محمد حسین بن محمود البغویؒ، المتوفی 516ھ (تفسیر معالم التنزیل 199/1)۔
9۔ ابو محمد ابن عطیہ الاندلسیؒ، المتوفی 542ھ (المحرر الوجیز 570/3)۔
10۔ امام ابو الفرج ابن الجوزیؒ، المتوفی 597ھ (زاد المسیر 186/5)۔
11۔ علامہ فخر الدین الرازیؒ، المتوفی 606ھ (تفسیر الکبیر 141/21)۔
12۔ علامہ ابو الخیر البیضاویؒ، المتوفی 685ھ (تفسیر البیضاوی 520/1)۔
13۔ حافظ ابنِ کثیرؒ، المتوفی 774ھ (تفسیر القرآن العظیم 138/3)۔
14۔ علامہ ابو البرکات النسفیؒ، المتوفی 710ھ(تفسیر النسفی 25/3)۔
15۔ علامہ ابنِ عرفہؒ، المتوفی 803ھ (تفسیر ابنِ عرفہ 99/3)۔
16۔ علامہ نظام الدین القمی النیسا پوریؒ، المتوفی بعد 850ھ(غرائب القرآن ورغائب الفرقان 458/4)۔
17۔ علامہ ابو حفص ابنِ عادل الدمشقیؒ، المتوفی بعد 880ھ (تفسیر اللباب فی علوم الکتاب 557/12)۔
18۔ علامہ ابو بکر البقاعیؒ، المتوفی 885ھ (نظم الدرر فی تناسب الآیات والسور 130/12)۔
19۔ حافظ جلال الدین سیوطیؒ، المتوفی 911ھ و جلال الدین المحلیؒ ، المتوفی 864ھ (تفسیر الجلالین 392/1)۔
20۔ الشیخ نعمۃ اللہ بن محمود علوانؒ، المتوفی920ھ(الفواتح الالہیہ 489/1)۔
21۔ علامہ حسین بن محمد الدیار بکریؒ، اکمتوفی 966ھ (تاریخ الخمیس 102/1)۔
22۔ علامہ شربینیؒ، المتوفی 977ھ (السراج المنیر 402/2)۔
23۔ علامہ ابو السعود محمد بن محمد بن مصطفی العمادیؒ، المتوفی 982ھ (تفسیر ابی السعود 242/5)۔
24۔ علامہ احمد بن محمد ابنِ عجیبہ الفاسیؒ ، المتوفی 1224ھ (البحر المدید 302/3)۔
25۔ علامہ ابو الفضل محمود آلوسیؒ، المتوفی 1230ھ (روح المعانی 32/16)۔
26۔ علامہ احمد بن مصطفی المراغیؒ، المتوفی 1371ھ (تفسیر المراغی 16/16)۔
27۔ سید قطب ؒ، المتوفی 1385ھ (تفسیر فی ظلال القرآن2287/4)۔
28۔ علامہ محمد طاہر ابنِ عاشور التونسیؒ، المتوفی 1393ھ (التحریر والتنویر25/16)۔
29۔ علامہ محمد متولی الشعراوی، 1418ھ (تفسیر الشعراوی 8982/2)۔
بخوفِ طوالت ہم ان اکابر کی عبارات پیش کرنے سے قاصر ہیں، مگر بوقتِ ضرورت پیش بھی کی جا سکتی ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سورج چشمہ کے اندر غروب نہیں ہوتا تو پھر مندرجہ ذیل حدیث سے کیا مراد ہے؟
4002 - حدثنا عبيد الله بن عمر بن ميسرة وعثمان بن أبي شيبة المعنى قالا ثنا يزيد بن هارون عن سفيان بن حسين عن الحكم بن عتيبة عن إبراهيم التيمي عن أبيه عن أبي ذر قال كنت رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على حمار والشمس عند غروبها فقال " هل تدري أين تغرب هذه ؟ " قلت الله ورسوله أعلم قال " فإنها تغرب في عين حامية " 
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں آپ علیہ السلام کے ساتھ سوار بر حمار تھا، سورج غروب ہونے کو تھا۔ آپ علیہ السلام نے پوچھا "تمہیں پتہ ہے کہ یہ کہاں غروب ہوتا ہے؟" میں نے عرض کی کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا "یہ گرم چشمہ میں غروب ہوتا ہے۔"
(ابو داؤد 4002،تفسیر الطبری 404/5،تفسیر الثعالبی 190/6، بحر العلوم للسمر قندی 497/1، حدیث السراج 2703، معرفۃ اسامی ارداف النبی 42/1، جزء فیہ قراءات النبی 123/1، مسند احمد 21497، وباسنادہ رواہ الذھبی فی العلو للعلی الغفار 83/1، المستدرک 2961،کتاب الحروف والقراءات 30/1).
اس کا جواب ان شآء اللہ حصہ دوم میں دیا جائے گا، ان شآء اللہ