Wednesday, September 7, 2016

इन्सान और बंदर में कोई रिश्ता नहीं ( HUMAN GENOME PROJECT)


ہیومن جینوم پرو جیکٹ


آج انسانی جین کی نقشہ کشی مکمل ہونے پر ثابت ہو گیا ہے کہ انسان اور بندر میں کوئی رشتہ نہیں ہے. ہمیشہ کی طرح اب بھی نظریہ ارتقا کے ماننے والے (ارتقا پرست) اس سائنسی ترقی کو بھی اپنے مقصد کے تحت استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.
جیسا کہ سب جانتے ہیں، حال ہی میں ہیومن جینوم پروجیکٹ کے تحت انسانی جین کی نقشہ کشی کی تکمیل انسانی تاریخ میں ایک بہت ہی اہم سائنسی دریافت ہے. تاہم ارتقا پرستوں (Evolutionists) کی بعض تحریروں میں اس پروجیکٹ کے نتائج کو غلط رنگ دیا جا رہا ہے. دعویٰ یہ کیا جارہا ہے کہ چیمپینزی او ر انسان کے جین میں 98 فی صد یکسانیت پائی جاتی ہے اور اس بات کو انسان اور چیمپینزی کے درمیان مماثلت اور نظریہ ارتقا کی تصدیق کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے. درحقیقت یہ ایک بے بنیاد دلیل ہے اور ارتقا رست اس موضوع پر عام افراد کی معلومات کی کمی کی وجہ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں.
اٹھانوے فی صد مماثلت ایک جھوٹا پروپیگنڈا ہے
سب سے پہلے تو 98 فی صد یکسانیت کے نظرئیے کو واضح کر دینا چاہیے کہ جو انسان اور چیمپینزی کے ڈی این اے کے حوالے سے ارتقا پرستوں نے پھیلایا ہے. ہونا یہ چاہیے تھا کہ انسان اور چیمپینزی کی جینیاتی بناوٹ کے درمیان 98 فی صد مماثلت کے حوالے سے کوئی دعویٰ کرتے ہوئے انسانی جینوم کی طرح چیمپینزی کے جینوم کی بھی نقشہ کشی کی جاتی او رپھر دونوں کے جینوم کا موازنہ کیا جاتا. اس موازنے کے نتائج کا مطالعہ کیا جاتا. جبکہ ایساکوئی مطالعہ دستیاب نہیں ہے، کیونکہ اب تک صرف انسانی جین کی نقشہ کشی کی گئی ہے. چیمپینزی کے لیے اب تک ایسی کوئی تحقیق نہیں کی گئی.
حقیقت یہ ہے کہ انسان اور بندر کے جین کے درمیان 98 فی صد مماثلت جو ایک اہم موضوع بن چکا ہے، ایک غلط پروپیگنڈا ہے جو آج سے برسوں پہلے تیار کر لیا گیا تھا. دراصل انسان اور چیمپینزی میں پائی جانے والی تیس چالیس بنیادی پروٹینز کے امائنو ایسڈز کے سلسلوں (Sequences) کے درمیان پائی جانے والی مماثلت کی بنیاد پر یہ پروپیگنڈا تیار کیا گیا اور غیر معمولی مبالغہ آمیزی کے ساتھ اس مماثلت کو بیان کیا گیا. اس سلسلے کا تجزیہ "ڈی این اے ہائبریڈائزیشن" (DNA hybridization) نامی طریقے سے کیا گیا ہے. اگرچہ اس طریقے میں پروٹین کا تجزیہ شامل ہے، لیکن اس میں محدود پیمانے پر پروٹینز کا موازنہ کیا گیا ہے. جبکہ ابھی ایک لاکھ جین باقی ہیں، گویا انسان میں ان جینز میں ایک لاکھ پروٹینز کوڈ ہیں. چونکہ ایک لاکھ پروٹینز میں سے صرف چالیس میں مماثلت پائی جاتی ہے، اس لیے اس دعوے کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے کہ انسان اور بندر کے 98 فی صد جینز یکساں ہیں.
دوسری جانب ان چالیس پروٹینز پر مشتمل "ڈی این اے کا موازنہ" (DNA comparison) بھی متنازعہ ہے. یہ موازنہ 1987ء میں دو ماہرین حیاتیات سبلے (Sibley) اور آلکیسٹ (Ahlquist) نے تیار کیا تھا اور "مالیکیولر ایوولوشن" (Molecular Evolution) نامی جریدے میں شائع ہوا تھا. تاہم بعد میں سارخ (Sarich) نامی ایک اور سائنس داں نے مذکورہ بالا سائنس دانوں کی معلومات کو جانچا اور کہا کہ ان دونوں نے اس دوران جو طریقہ اختیار کیا اس کا معیار متنازعہ ہے اور نتائج میں مبالغہ آرائی کی گئی ہے. (Sarich et al,1989, Cladisticts, 5:3-32). ایک اور ماہر حیاتیات ڈاکٹر ڈون بیٹن نے بھی 1996ء میں اس معاملے کا تجزیہ کیا اور کہا کہ اصل مماثلت 98 فی صد نہیں، 2ء96 فی صد ہے.
انسان کا ڈی این اے کیڑے، مچھر اور مرغی سے بھی مماثل ہے
اوپر ذکر کردہ بنیادی پروٹین کئی دیگر جان داروں میں بھی موجود ہے. انسان میں پائے جانے والی والی پروٹین صرف چیمپینزی ہی میں نہیں، بہت سی بالکل مختلف انواع میں بھی پائی جاتی ہے. مثال کے طور پر ہفتہ روزہ "نیو سائنٹسٹ" میں شائع ہونے والے ایک جینیاتی تجزئیے سے انکشاف ہوا کہ نیماٹوڈی حشرات (Nematode Worms) اور انسان کے ڈی این اے کے مابین 75 فی صد مماثلت پائی جاتی ہے. (نیوسائنٹسٹ، 15 مئی 1999ء، صفحہ 27) اس کا یقیناًیہ مطلب نہیں ہے کہ انسان اور ان حشرات میں صرف 25 فی صد فرق پایا جاتا ہے. ارتقا پرستوں کے تیار کردہ " شجرۂ نسب" (فیملی ٹری) کے مطابق کور ڈاٹا فائیلم( Chordata Phylum236جس میں انسان شامل ہے ) اور نیما ٹوڈا فائیلم گروپ کے جان دار آج سے 530 ملین سال پہلے بھی ایک دوسرے سے مختلف تھے.
دوسری جانب ایک اور سائنسی مطالعے کے مطابق، پھل مکھی (فروٹ فلائی236 جو ڈروسوفیلا قسم کے جان داروں میں شمار ہوتی ہے ) اور انسانی جینز میں 60 فی صد مماثلت پائی جاتی ہے.
مختلف جان داروں کی پروٹینز پر کیے گئے تجزیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر انسان سے مختلف ہونے کے باوجود ان کے پروٹینز انسانی پروٹین سے بہت مشابہ ہیں. کیمبرج یونیورسٹی کے محققین نے سطح زمین پر بسنے والے جانوروں کی پروٹین کا موازنہ کیا. حیران کن طور پر ان تمام نمونوں میں سے مرغی او رانسان کے نمونوں کو انتہائی قریب پایا گیا. اس کے بعد دوسرا قریبی نمونہ "مگر مچھ" کا تھا. (نیو سائنٹسٹ، 16 ؍ اگست1984ء، صفحہ 19)
انسان اور بندر کے درمیان مماثلت ثابت کرنے کے لیے ارتقا پرست چیمپینزی اور گوریلا کے 48 کروموسوم اور انسان کے 46 کروموسوم کی دلیل پیش کرتے ہیں. ارتقا پرست دونوں جنسوں کے درمیان کروموسوم کی تقریباً یکساں تعداد کو ان دونوں کے درمیان ارتقائی رشتے کی علامت کے طور پر بیان کرتے ہیں. لیکن اگر ارتقا پرستوں کی اس منطق کو درست مان لیا جائے تو پھر انسان کا چیمپینزی سے بھی زیادہ قریبی رشتہ "ٹماٹر" سے ہونا چاہیے، کیونکہ ٹماٹر میں کروموسوم کی تعداد انسان میں کروموسوم کی تعداد کے بالکل برابر ہوتی ہے یعنی چھیالیس!
جینیاتی مماثلت یا یکسانیت کا خیال، نظریہ ارتقا کی شہادت نہیں دیتا. او ر اس کی وجہ یہ ہے کہ جینیاتی مماثلتیں ارتقائی ضابطے (ایوولوشن اسکیم) سے تعلق نہیں رکھتیں (جیسا کہ ظاہر کیا جا رہا ہے) اور بالکل الٹ نتائج سامنے آ رہے ہیں.
جینیاتی مماثلتیں "ارتقائی ضابطہ" کو غلط ثابت کرتی ہیں جب اس حوالے سے مجموعی طورپر غور کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ "حیاتی کیمیائی مماثلتوں" کا موضوع ارتقا کے شواہد میں سے نہیں ہے بلکہ یہ موضوع تو نظریہ ارتقا کو ایک لغزش قراردیتا ہے. ڈاکٹر کرسچین شوابے (ساؤتھ کیرولینا یونیورسٹی کے میڈیکل فیکلٹی میں حیاتی کیمیا کے محقق) ایک ارتقا پرست سائنس داں ہیں جنہوں نے سالموں میں ارتقا کے شواہد تلاش کرنے کے لیے کئی برس صرف کیے ہیں. انہوں نے خاص طور پر انسولین اور ریلیکسن ٹائپ پروٹینز (Relaxin-type Proteins) پر تحقیق کی ہے اور مختلف جان داروں کے درمیان ارتقائی رشتہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے. تاہم انہیں کئی بار اس کا اعتراف کرنا پڑا کہ وہ اپنی تحقیق کے دوران کبھی بھی ارتقا کے شواہد حاصل نہیں کر سکے. جریدہ "سائنس میگزین" میں شائع شدہ ایک مضمون میں انہوں نے کہا:
"Molecular evolution is about to be accepted as a method superior to palaeontology for the discovery of evolutionary relationships. As a molecular evolutionist I should be elated. Instead it seems disconcerting that many exceptions exist to the orderly progression of species as determined by molecular homologies; so many in fact that I think the exception, the quirks, may carry the more important message" (Christian Schwabe 'On the Validity of Molecular Evolution', Trends in Biochemical Sciences. V.11, July 1986)
سالماتی حیاتیات میں ہونے والی نئی دریافتوں کی بنیاد پر ایک ممتاز حیاتی کیمیا داں پروفیسر مائیکل ڈینٹن کا اس ضمن میں خیا ل ہے کہ:
"Each class at molecular level is unique, isolated and unlinked by intermediates. Thus,molecules like fossils, have failed to provide the elusive intermediates so long sought by evolutionary biology... At a molecular level, no organism is 'ancestral' or 'primitive' or 'advanced' compared with its relatives... There is little doubt that if this molecular evidence had been available a century avo... the idea of organic evolution might never been accepted." (Michael Denton, Evolution; A Theory in Crisis, London; Burnett Books 1985 pp.290-291)
مماثلتیں ارتقا کا نہیں، تخلیق کا ثبوت ہیں
انسانی جسم کا کسی دوسری جان دار نوع سے سالماتی مماثلت رکھنا ایک بالکل قدرتی عمل ہے، کیونکہ یہ سب ایک جیسے سالموں سے بنائے گئے ہیں، یہ سب ایک ہی پانی اور فضا استعمال کرتے ہیں اور ایک جیسے سالموں پر مشتمل غذائیں استعمال کرتے ہیں. چنانچہ ان کے نظام ہائے استحالہ (میٹابولزم) اور جینیاتی بناوٹیں ایک دوسرے سے مشابہ ہیں. تاہم اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان تمام انواع (انسان اور حیوان) کا جدِ امجد ایک ہی تھا. یہ "یکساں مادہ" ارتقا کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ ان کا "یکساں ڈیزائن" ہے، گویا ان سب کو ایک ہی منصوبے کے تحت تخلیق کیا گیا ہے.
اس موضوع کو ایک مثال سے واضح کرنا ممکن ہے: دنیا میں تمام عمارات ایک جیسے مادے (اینٹ، پتھر، لوہا، سیمنٹ وغیرہ) سے تعمیر کی جاتی ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب یہ نہیں کہ تمام عمارتیں ایک دوسرے سے ارتقا پذیر ہوئی ہیں. وہ تمام علیحدہ علیحدہ، مگر یکساں مادے سے تیار کی گئی ہیں. یہی بات جان داروں (انسانوں اور حیوانوں ) کے لیے بھی درست ہے.
یہ زندگی ایک غیر شعوری، غیر منصوبہ بند سلسلہ عوامل کا نتیجہ نہیں، جیسا کہ ارتقا پرست دعویٰ کرتے ہیں. بلکہ خالق عظیم اللہ عز و جل کی تخلیق کا نتیجہ ہے جو لامحدود علم اور حکمت کا مالک ہے.
10- جینیاتی تبدّل ہمیشہ تخریبی ہوتا ہے
اِرتقاء کے حامیوں کے نزدیک اِرتقاء کا عمل تبدّل یعنی جینیاتی خصوصیات میں تبدیلی کے ذریعے وُقوع پذیر ہوا. یہ دعویٰ بھی صحیح معنوں میں حقیقت کو مسخ کرنے کے مُترادف ہے. (اصل حقیقت یہ ہے کہ) تبدّل کبھی بھی تعمیری نہیں ہوتا بلکہ (ہمیشہ) تخریبی ہی ہوتا ہے. تبدّل کو دریافت کرنے والے سائنسدان ملّر (Muller) کے تجربات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تعمیری جینیاتی تبدیلی کا (حقیقت میں ) کوئی وُجود نہیں، جینیاتی تبدیلی ہمیشہ تخریبی ہی ہوتی ہے. اِس سلسلے میں کئے جانے والے تجربات میں بھی یہ حقیقت اِسی طرح عیاں ہوئی کہ (جینیاتی) خصوصیات تبدیل نہیں ہوا کرتیں بلکہ تباہ ہوا کرتی ہیں. جس کا نتیجہ کینسر یا موت کی صورت میں ظاہر ہوا کرتا ہے. یا پھر بگڑنے والی خصوصیات پہلے سے کمزور جسیمے کی تخلیق کا باعث بنتی ہیں (جیسا کہ ملّر کی سبز آنکھوں والی مکھی) آج تک کئے گئے ہزارہا تجربات کے باوُجود کوئی بھی کسی جسیمے میں ہونے والے (مثبت) تبدّل سے نیا جسیمہ حاصل نہیں کر سکا. جبکہ دُوسری طرف ہڈی کے گودے میں واقع ایک پِدری خلئے کے ذریعے ہر سیکنڈ میں لاکھوں کی تِعداد میں مختلف نئے خلئے پیدا ہوتے رہتے ہیں. اگر تبدّل (کے اَفسانے ) میں ذرا بھی حقیقت ہوتی تو اب تک یہ عجوبہ قطعی طور پر ثابت ہو چکا ہوتا.
کاپی کیا گیا مضمون

Friday, September 2, 2016

KYA SURAJ,CHASHME ME GRUB HOTA HAI ?


اسلام پر وارد شدہ بے بنیاد اعتراضات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسلام مسلمہ سائنسی حقائق کے خلاف نظریات بیان کرتا ہے۔ بطورِ مثال یہ کہ قرآن میں ذکر ہے کہ سورج ایک چشمہ میں غروب ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ قرآن کو پوری طرح نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ سائنسی نظریات کی "مسلمہ حیثیت" کی حقیقت اور ان کے قبول و رد کے معیار سے قطع نظر، جس آیت پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے، اگر اسے ہی درست طور پر سمجھ لیا جاتا تو انصاف پسندانہ ذہنیت کیلئے اعتراض کی کوئی نوبت ہی نہ آتی۔
 آیئے، پوری آیت ملاظہ فرمایئے؛

حتى إذا بلغ مغرب الشمس وجدها تغرب في عين حمئة ووجد عندها قوما قلنا يا ذا القرنين إما أن تعذب وإما أن تتخذ فيهم حسنا (الکہف 86)۔

یہاں تک کہ جب وہ (ذوالقرنین) غروب آفتاب کے موقع پر پہنچے تو اسے ایک سیاہ چشمہ میں ڈوبتا ہوا پایا، اور وہاں پر انہیں ایک قوم بھی ملی۔ ہم نے کہا کہ اے ذو القرنین،یا تو تُو انہیں سزا دے گا یا پھر ان پر نرم رویہ اختیار کرے گا۔
قرآن کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں ہیں کہ یہ ذو القرنین کی حسیات تھیں، جنھوں نے سورج کو سیاہ گرم چشمہ میں ڈوبتا ہوا محسوس کیا اور قرآن نے بغیر تصدیق و تکذیب کے اسے نقل کیا۔ اور یہ کوئی اچنبھا نہیں ہے ،بلکہ روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ ایک ہی دن میں کئی آدمی اسے پہاڑ پیچھے، کئی زمین میں، کئی سمندر میں ڈوبتا ہوا دیکھتے ہیں۔ اگر ذو القرنین نے اسے سیاہ چشمہ میں ڈوبتا ہوا دیکھ لیا، تو کیا حرج ہے؟ اور یہ بھی قطعاً ضروری نہیں کہ ذو القرنین اس کے چشمہ میں ہی غروب ہونے پر یقین رکھتے ہوں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا انھوں نے اس سے پہلے سورج غروب ہوتا ہوا نہیں دیکھا ہو گا؟ اگر دیکھا ہو تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ سورج کے زمین، پہاڑ یا سمندر وغیرہ میں غروب ہونے پر یقین رکھتے تھے؟ اگر نہیں تو یہاں یہ عقیدہ کیسے ان کے ذمے لگا سکتے ہیں؟

اگر کوئی کہے کہ قرآن اگر اس غلط نظریے پر یقین نہیں رکھتا تھا تو اس کی تکذیب کر کے صحیح نظریہ کیوں نہیں پیش کیا؟ تو عرض ہے کہ
اولاً تسلیم شد کہ قرآن کا موضوع سائنس نہیں، بلکہ انسان اور اس کی نجات ہے۔ لہذا اگر قرآن کوئی سائنسی نظریہ پیش نہیں کرتا، یا کسی حوالے سے پیش کر کے اس کی تصدیق یا تکذیب نہیں کرتا تو یہ قدغن لازم نہیں کہ قرآن نے اپنے موضوع کو تشنہ چھوڑا ہے۔
ثانیاً، یہ بھی کوئی دانشمندانہ اقدام نہ ہوتا کہ قرآن اپنے زمانے سے پانچ سو یا ہزار سال بعد کے ترقی یافتہ زمانے کے نظریات اسی زمانے کے لوگوں کو قبول کرنے پر مجبور کرتا کہ عقول جن کے تسلیم کرنے پر ابھی بالکل تیار نہ تھیں۔ بلکہ یہ قرآن پر ایک مستقل اعتراض بن جاتا جو اس کی مقبولیت میں حائل ہو جاتا۔ قرآن میں وارد شدہ سائنسی حقائق ایسے لطیف پیرائے میں بیان کئے گئے ہیں کہ زمانہ نزولِ قرآن کے لوگوں کیلئے اس کے عقلی انکار کی کوئی گنجائش نہ تھی،اگرچہ ان کی دریافت بعد میں ہوئی۔
ثالثاً،قرآن نے غروبِِ شمس کے ذو القرنینی مشاہدہ کی تصدیق و تکذیب کی بجائے ایک اور انداز اختیار کیا جو نہ صرف اس زمانہ کی عقلی و علمی سطح کے مطابق تھا، بلکہ قرونِ آخر کی علمی و عقلی ترقی اور سائنسی دریافتوں پر بھی پورا اترتا ہے۔ اللہ نے فرمایا؛
وهو الذي خلق الليل والنهار والشمس والقمر كل في فلك يسبحون (الانبیاء 33)۔
اور اللہ تو وہ ذات ہے، جس نے رات اوردن، سورج اور چاند کو پیدا فرمایا۔ ہر کوئی اپنے مدار میں تیر رہا ہے۔
"فلک" کہتے ہیں ستاروں کے مدار کو۔(لسان العرب 478/10)۔ "یسبحون" کا مصدر "السبح والسباحۃ" ہے،جس کا مطلب ہے تیرنا یا تیراکی۔(لسان العرب 470/2)۔ لہذا قرآن کے 
مطابق لیل و نہار، (یعنی زمین، کہ جس کی محوری گردش سے ہی دن اور رات وجود پذیر ہوتے ہیں اور یہ قرآن کا کمال ہے کہ اسے براہِ راست زمین کی گردش قرار نہیں دیا کہ اس زمانہ کی عقول اس حقیقت کو سمجھنے سے عاری تھیں)، سورج اور چاند اپنے اپنے مدار میں محوِ گردش ہیں۔ اب اگرقرآن اس نظریے کو درست سمجھتا کہ سورج زمین سے ہی نکلتا اور اسی کے کسی چشمہ میں ڈوب جاتا ہے تو مدار کی گردش کا ذکر نہ کرتا کہ اس صورت میں مداری گردش ممکن ہی نہیں رہتی۔ موجودہ سائنسی نظریات کے مطابق اگرچہ سورج کا یہ مدا زمین کے گرد نہیں، بلکہ کہکشاں کے گرد ہے،مگر مداری گردش ممکن ہی تب ہے جب سورج نہ کسی چیز سے نکلتا ہو اور نہ ہی کسی چیز میں ڈوبتا ہو۔لہذا قرآن نے اس پہلو کو بھی تشنہ نہیں چھوڑا بلکہ براہِ راست تکذیب کی بجائے ایک عقل کو اپیل کرتانظریہ دے کر دعوتِ تحقیق دی ہے اور پھر بعد از تحقیق یہ نظریہ درست ثابت ہوا۔ فللہ الحمد۔
رابعاً، اسی آیت کے اگلے الفاظ یہ ہیں؛
۔۔۔ووجد عندها قوما۔۔۔ 
یعنی اسی چشمہ کے قریب ذوالقرنین کو ایک قوم ملی۔سوال یہ ہے کہ سورج کی گرمی کی وجہ سے وہ قوم جل کیوں نہ گئی؟ بلکہ چشمہ کا پانی بخارات بن کر اڑ کیوں نہ گیا؟ حالانکہ سورج کی تپش کا ذکر خود قرآن میں موجود ہے؛
وجعلنا سِراجاً وهَّاجاً (النبا 13)۔اور ہم نے شدید حرارت و تپش والا چراغ بنایا۔
آیئے قرآن سے ہی پوچھتے ہیں کہ یہ چراغ ہے کیا؟ تو اللہ نے فرمایا؛
وجعل الشمس سراجا (نوح 16)۔اور اس اللہ نے سورج کو چراغ بنایا۔
والسِّراجُ المصباح الزاهر الذي يُسْرَجُ بالليل والجمع سُرُجٌ والمِسْرَجَةُ التي فيها الفتيل (لسان العرب 297/2)۔"سراج" کہتے ہیں چراغ کو،جو رات کو جلایا جاتا ہے۔اسکی جمع "سُرُجٌ" ہے۔ مسرجہ وہ چراغ ہے، جس میں جلنے کیلئے بتی (دھاگہ) ہوتا ہے۔يوم وَهِجٌ ووَهْجانٌ شديد الحر (لسان العرب 401/2)۔"یوم وھج" کہتے ہیں شدید گرم دن کووالتَّوَهُّجُ حرارة الشمس والنار من بعيد (ایضاً)۔"توھج" کہتے ہیں سورج یا آگ کی اس حرارت کو، جو دور سے محسوس ہوتی ہے۔
مندرجہ بالا تصریحاتِ لغویہ سے پتہ چلا کہ قرآن کی رو سے؛

1۔ سورج ایک آگ کاجلتا ہوا چراغ ہے۔
2۔ اس کی حرارت و تپش بہت شدید ہے۔
3۔ یہ حرارت دور سے ہی محسوس ہوتی ہے۔
پھر روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ موسلادھار بارش کے بعد بھی اگر دھوپ نکل آئے تو چند ہی منٹوں میں بارش کا پانی اڑا دیتی ہے، مگر یہاں پورے کا پورا سورج چشمہ میں ڈوب جاتا ہے،مگر پانی بخارات نہیں بنتا،نہ ہی اس چشمہ کے قریب رہنے والوں پر ہی کچھ اثر ہوتا ہے۔ تو پتہ چلا کہ قرآن کا منشا ہر گز یہ نہیں ہے کہ سورج پانی میں ڈوبتا ہے،بلکہ وہ تو سورج کو آگ قرار دیتا ہے،جس کی حرارت بہت شدید ہے اور دور سے ہی محسوس ہوتی ہے۔ ہاں ذوالقرنین کا تخیل ہو تو ہو اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ چشمہ کے اس پار سورج غروب ہو رہا ہے، جیسا کہ کوہستانی علاقہ میں محسوس ہوتا ہے کہ فلاں پہاڑ کے اس پار سورج غروب ہو رہا ہے۔
خامساً، آگے اللہ نے فرمایا ہے؛
ثم أتبع سببا حتى إذا بلغ مطلع الشمس وجدها تطلع على قوم لم نجعل لهم من دونها سترا (الکہف 89،90)۔
پھر وہ اور راہ پر چلا۔حتی کہ سورج نکلنے کے جگہ پر آ پہنچا۔ تو اس نے اسے ایسی قوم پر طلوع ہوتا ہوا پایا کہ جن کیلئے ہم نے اس سے اور کوئی اوٹ نہیں بنائی تھی۔
اب بتایا جائے کہ کیا قرآن کا منشا یہ ہے کہ سورج ان لوگوں کے درمیان سے طلوع ہوتا تھا؟ یا اس قوم کے اندر سے باہر نکلتا تھا؟ حالانکہ اسمِ ظرف دونوں جگہ ایک جیسے ہیں، یعنی " مغرب و مطلع" (غروب ہونے کی جگہ، طلوع ہونے کی جگہ)۔ اگر غروب زمین کے چشمہ میں ہوتا ہے تو طلوع زمین کے اندر اس قوم کے درمیان سے کیوں نہیں ہو سکتا؟
سادساً، قرآن کے مطابق سورج آسمان میں ہے،زمین پر نہیں؛
تبارك الذي جعل في السماء بروجا وجعل فيها سراجا وقمرا منيرا (الفرقان 61)۔
با برکت ہے وہ ذات، جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں چراغ (سورج) اور روشن چاند بنایا۔
اور یہ مسلم ہے کہ بعد از مرحلہ تخلیق، زمین و آسمان ملے ہوئے نہیں ہیں۔ بلکہ ان کے درمیان فاصلہ ہے۔ اجرامِ فلکی کے متعلق قرآن نے یہ اصول بتایا ہے کہ یہ نہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں نہ ٹکراتے ہیں، بلکہ اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔ (یس 40)۔ اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ سورج صرف آسمان میں ہی ہے،زمین پر نہیں اترتا۔یہ مشاہدہ صرف ذوالقرنین کا تھا کہ سورج سیاہ گرم چشمہ میں غروب ہو رہا ہے اور قرآن نے اسے بلا تصدیق و تکذیب نقل کیا ہے۔
سابعاً یہ کہ قرآن، مشارق و مغارب، یعنی ایک سے زیادہ مشرقوں اور مغربوں کا ذکر کرتا ہے؛۔
فلا أقسم برب المشارق والمغارب إنا لقادرون (المعارج 40)۔
تو مشرقوں اور مغربوں کے رب کی قسم، یقیناً ہم واقعی قدرت رکھنے والے ہیں۔
اگر ایک اسی جگہ یا اسی چشمہ میں غروب ہوتا ہے، تو ایک سے زیادہ مشرقوں اور مغربوں کا ذکر باطل ہے۔
کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم موجودہ زمانے میں قرآن کی یہ تاویل کرنے پر مجبور ہیں۔ بلکہ ہمارے اسلاف بھی شروع ہی سے مذکورہ بالا آیت کا معنی "چشمہ کے اندر غروب ہونے " کا انکار کرتے آئےہیں اور وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد ہے کہ ذو القرنین اس مقام پر پہنچ گئے، جہاں پر اس زمانے کی معلومات کے مطابق زمین ختم ہو جاتی تھی اور سمندر شروع ہو جاتا تھا۔ اس سے آگے نہ کوئی عمارت تھی نہ آبادی۔ لہذا ذو القرنین کو یوں محسوس ہوا کہ اس سے آگے صرف سورج ہی غروب ہوتا ہو گا اور کچھ بھی نہیں۔ اور جس چشمہ یا سمندر کے پار یہاں سورج غروب ہو رہا تھا،اس کی مٹی کا رنگ کالا اور پانی (سورج کی شعاعوں کے انعکاس کی وجہ سے) گرم محسوس ہو رہا تھا۔ ان اسلاف میں سے چند ایک کے نام ہم آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں؛
1۔ امام ابو جعفر النحاس المحاربیؒ، المتوفی 245ھ (معانی القرآن 286/4)۔
2۔ أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوريؒ، المتوفی 276ھ (الانواء فی مواسم العرب 141/1)۔
3۔ امام طحاویؒ، المتوفی 321ھ (شرح مشکل الآثار 254/1)۔
4۔ امام أبو سليمان حمد بن محمد الخطابيؒ، المتوفی 388ھ (اعلام الحدیث 1894/3)۔
5۔ امام قفال المروزیؒ، المتوفی 417ھ و امام قرطبیؒ ،المتوفی 671ھ (تفسیر القرطبی 48/11)۔
6۔امام ابنِ حزمؒ، المتوفی 456ھ (الفصل فی الملل والنحل 82/2)۔
7۔ علامہ أبو الوفاء علي بن عقيل البغدادي المعروف بہ ابنِ عقیلؒ، المتوفی 513ھ (المنتظم فی التاریخ 36/1)۔
8۔امام ابو محمد حسین بن محمود البغویؒ، المتوفی 516ھ (تفسیر معالم التنزیل 199/1)۔
9۔ ابو محمد ابن عطیہ الاندلسیؒ، المتوفی 542ھ (المحرر الوجیز 570/3)۔
10۔ امام ابو الفرج ابن الجوزیؒ، المتوفی 597ھ (زاد المسیر 186/5)۔
11۔ علامہ فخر الدین الرازیؒ، المتوفی 606ھ (تفسیر الکبیر 141/21)۔
12۔ علامہ ابو الخیر البیضاویؒ، المتوفی 685ھ (تفسیر البیضاوی 520/1)۔
13۔ حافظ ابنِ کثیرؒ، المتوفی 774ھ (تفسیر القرآن العظیم 138/3)۔
14۔ علامہ ابو البرکات النسفیؒ، المتوفی 710ھ(تفسیر النسفی 25/3)۔
15۔ علامہ ابنِ عرفہؒ، المتوفی 803ھ (تفسیر ابنِ عرفہ 99/3)۔
16۔ علامہ نظام الدین القمی النیسا پوریؒ، المتوفی بعد 850ھ(غرائب القرآن ورغائب الفرقان 458/4)۔
17۔ علامہ ابو حفص ابنِ عادل الدمشقیؒ، المتوفی بعد 880ھ (تفسیر اللباب فی علوم الکتاب 557/12)۔
18۔ علامہ ابو بکر البقاعیؒ، المتوفی 885ھ (نظم الدرر فی تناسب الآیات والسور 130/12)۔
19۔ حافظ جلال الدین سیوطیؒ، المتوفی 911ھ و جلال الدین المحلیؒ ، المتوفی 864ھ (تفسیر الجلالین 392/1)۔
20۔ الشیخ نعمۃ اللہ بن محمود علوانؒ، المتوفی920ھ(الفواتح الالہیہ 489/1)۔
21۔ علامہ حسین بن محمد الدیار بکریؒ، اکمتوفی 966ھ (تاریخ الخمیس 102/1)۔
22۔ علامہ شربینیؒ، المتوفی 977ھ (السراج المنیر 402/2)۔
23۔ علامہ ابو السعود محمد بن محمد بن مصطفی العمادیؒ، المتوفی 982ھ (تفسیر ابی السعود 242/5)۔
24۔ علامہ احمد بن محمد ابنِ عجیبہ الفاسیؒ ، المتوفی 1224ھ (البحر المدید 302/3)۔
25۔ علامہ ابو الفضل محمود آلوسیؒ، المتوفی 1230ھ (روح المعانی 32/16)۔
26۔ علامہ احمد بن مصطفی المراغیؒ، المتوفی 1371ھ (تفسیر المراغی 16/16)۔
27۔ سید قطب ؒ، المتوفی 1385ھ (تفسیر فی ظلال القرآن2287/4)۔
28۔ علامہ محمد طاہر ابنِ عاشور التونسیؒ، المتوفی 1393ھ (التحریر والتنویر25/16)۔
29۔ علامہ محمد متولی الشعراوی، 1418ھ (تفسیر الشعراوی 8982/2)۔
بخوفِ طوالت ہم ان اکابر کی عبارات پیش کرنے سے قاصر ہیں، مگر بوقتِ ضرورت پیش بھی کی جا سکتی ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سورج چشمہ کے اندر غروب نہیں ہوتا تو پھر مندرجہ ذیل حدیث سے کیا مراد ہے؟
4002 - حدثنا عبيد الله بن عمر بن ميسرة وعثمان بن أبي شيبة المعنى قالا ثنا يزيد بن هارون عن سفيان بن حسين عن الحكم بن عتيبة عن إبراهيم التيمي عن أبيه عن أبي ذر قال كنت رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على حمار والشمس عند غروبها فقال " هل تدري أين تغرب هذه ؟ " قلت الله ورسوله أعلم قال " فإنها تغرب في عين حامية " 
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں آپ علیہ السلام کے ساتھ سوار بر حمار تھا، سورج غروب ہونے کو تھا۔ آپ علیہ السلام نے پوچھا "تمہیں پتہ ہے کہ یہ کہاں غروب ہوتا ہے؟" میں نے عرض کی کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا "یہ گرم چشمہ میں غروب ہوتا ہے۔"
(ابو داؤد 4002،تفسیر الطبری 404/5،تفسیر الثعالبی 190/6، بحر العلوم للسمر قندی 497/1، حدیث السراج 2703، معرفۃ اسامی ارداف النبی 42/1، جزء فیہ قراءات النبی 123/1، مسند احمد 21497، وباسنادہ رواہ الذھبی فی العلو للعلی الغفار 83/1، المستدرک 2961،کتاب الحروف والقراءات 30/1).
اس کا جواب ان شآء اللہ حصہ دوم میں دیا جائے گا، ان شآء اللہ


Wednesday, August 31, 2016

firoun ki lash


فرعون کی لاش۔۔۔ قرآن مجید کا دعویٰ اس شان سے پورا ہو گا‘ بھلا کسے معلوم تھا؟

ہم یہاں واضح کر دینا چاہتے ہیں قرآن مجید سائنس کی کتاب ہر گز نہیں بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبرؐ پر اس لیے نازل کی تاکہ اس کے ذریعے سے وہ لوگوں کا تزکیہ کر سکیں۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بہت سی نشانیوں کا ذکر کیا ہے اور ان کے بیان میں محض ضمنی طور پر بعض ایسے تاریخی اور علمی حقائق کی طرف اشارہ کیا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں بیان ہوئے تھے۔ سائنس کے حوالے سے جو باتیں برسبیل تذکرہ بیان ہوئی ہیں ‘وہ ایسی ہیں جنہیں جدید سائنسی تحقیق آج دریافت کر رہی ہے اور ایسا صرف اس لیے ہوا کہ ان حقائق کو بیان کرنے والا اس کار خانہ قدرت کا خالق ہے‘ لہٰذا اس طرح کے سائنسی حقائق کے انکشاف سے اس غلط فہمی میں نہیں پڑنا چاہیے کہ قرآن محض سائنسی یا اس طرح علمی انکشافات کرنے کے لیے نازل ہوا تھا۔
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلا م بھی ہے اور اس کے آخری پیغمبرحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سچا ہونے کا ایک زندہ معجزہ بھی۔ قرآنی معجزات کے سلسلے میں اس دفعہ ایک ایسے معجزے کی داستان درج کی جاتی ہے‘ جس کو پڑھ کر ایمان والوں کا ایمان تازہ بھی ہو گا اور مضبوط بھی اور ہر غیر مسلم کے لیے یہ معجزہ ایک مجسم سوال بن جائے گاکہ اس عظیم نشانی کے باوجود بھی قرآن منزل من اللہ نہ ماننے کی آخر کیا وجہ ہے؟
میری بہن اپنے بیٹے کی اس عادت سے پریشان تھی کہ اس کی انٹرنیٹ سے دلچسپی بڑھ گئی ہے لیکن ایک دن اس نے خوشی خوشی مجھے بتایااب اس کی پریشانی دور ہو گئی ہے۔ اس اطمینان کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہنے لگی کہ پچھلی رات ایک بجے سٹڈی روم سے آنے والی آواز نے ہمیں نیند سے بیدار کر دیا تھا۔ میرے شوہر رؤف صاحب جلدی سے اٹھے اور ڈرتے ڈرتے احتیاط سے سٹڈی روم کی طرف چل دیئے۔ سٹڈی روم کا دروازہ کھلا اور کمراروشن تھا۔ انھوں نے دائیں طرف دیکھا تو ایک اور حیرت نے ان کے قدم تھام لیے۔ معاذ کے کمرے کی بتی بھی روشن تھی ۔ وہ پہلے اس کمرے کی طرف بڑھے‘ اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ کمپیوٹر آن ہے لیکن معاذ وہاں موجود نہیں تھا۔ اس چیز نے تو ان کی تشویش میں مزید اضافہ کر دیا۔ وہ اب دوبارہ سٹڈی روم کی طرف بڑھے ۔ دروازے کے قریب آئے تو پھر آواز آئی ۔ وہ دبے قدموں سٹڈی روم میں داخل ہوئے اور پھر انہوں نے اطمینان کا سانس لیا ۔ سٹڈی روم میں معاذ ان سے بے خبر کتاب پڑھنے میں مصروف تھا۔ ’’بھئی یہ کون سا وقت ہے تحقیق کا ؟‘‘ انہوں نے بے زاری سے پوچھا ۔ ابو میری انٹرنیٹ پر ایک دوست سے بات ہو رہی ہے اس نے مجھ سے ایک بات پوچھی تھی جس کے لیے مجھے قرآن مجید دیکھنا پڑ گیا تھا۔ اسی لیے یہاں قرآن مجید اور اس کی تفسیر دیکھ رہا ہوں۔
’’ لیکن وہ آواز؟‘‘
دراصل مجھ سے ایک کتاب گر پڑی تھی اتنی دیر میں بھی وہاں پہنچ گئی ۔ ہم دونوں حیرت سے بیٹے کی طرف دیکھ رہے تھے‘ دراصل ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ انٹرنیٹ پر گفتگو معاذ کو قرآن مجید پڑھنے پر مجبور کر دے گی‘تب ہمارا اس حقیقت پر اعتماد اور بڑھ گیا تھا کہ کوئی ایجاد اصل میں بری نہیں ہوتی ۔ اس کا استعمال ہے جو اچھا یا برا بناتا ہے ۔ کچھ لمحوں کے توقف بعد رؤف صاحب نے پوچھا‘معاذ بیٹا ! قرآن مجید میں کیا چیز دیکھ رہے ہو؟اور کس دوست سے بات ہو رہی تھی؟
دراصل ایک بڑی اچھی سائٹ ہے‘ میں اس سائٹ کو دیکھتا رہتا ہوں۔ اس کے وہ صفحات جس میں غیر مسلموں کے سوالوں کے جواب دیئے جاتے ہیں بڑے دلچسپ اور ایمان افروز ہوتے ہیں۔ اسی صفحے پر ایک غیر مسلم طالب علم رابن کے ساتھ میری گفتگو شروع ہوگئی۔ ظاہر ہے ہم مذہب پر گفتگو کرتے تھے۔ یوں ہماری دوستی ہو گئی لیکن آج اس نے مجھ سے ایک مشکل سوال کر دیا ہے میں بے بس اسی سوال کا جواب تلاش کر رہا تھا۔
مسٹر رابن نے تم سے کون سا سوال پوچھ لیا؟رؤف صاحب کی نیند اب ختم ہو چکی تھی اور وہ بیٹے کی دلچسپیوں میں دلچسپی لے رہے تھے۔
ابو! وہ پوچھ رہا تھا کہ سورہ یونس کی آیت نمبر 92میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ فرعون کی لاش کو محفوظ رکھے گا اور اسے دنیا کے لیے نمونہ بنائے گا۔ مگر یہ لاش کہاں ہے؟قرآن کے دعوے کے مطابق اسے کب اور کہاں نمونہ بنا کر رکھا گیا ہے ؟ اور ابو میں نے سورۃیونس کی وہ آیت دیکھ لی ہے واقعی اس میں اللہ نے یہ فرمایا ہے مگر مجھے تو اس کے بارے میں کچھ علم نہیں۔ میں نے کچھ تفسیر یں بھی دیکھی ہیں اس میں بھی اس کے متعلق کچھ نہیں لکھا۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اب رابن کو کیا جواب دوں گا۔
رؤف صاحب مسکرائے اور بولے ’’بیٹا وہ دیکھو ‘دائیں طرف الماری کی تیسری شیلف سے پانچویں کتاب اٹھاؤ۔
معاذ نے وہ کتاب نکالی ۔ کتاب انگریزی میں تھی۔ اس کا نام تھا۔ ’’قرآن ‘بائبل اینڈ سائنس‘‘رؤف صاحب بولے بیٹے اس کتاب میں تمہیں اس سوال کا بڑا اچھا جواب مل جائے گا اور میرے خیال میں تم آدھ گھنٹے ہی میں اسے جوابی ای میل بھیج دو گے۔ اب تم کتاب پڑھو اور ہم سوتے ہیں اور ہاں بیٹے یہ اتنی رات گئے جاگنا کوئی اچھی عادت نہیں۔ کوشش کرو کہ زیادہ سے زیادہ دس بجے تک جاگو رات دیر تک جاگنے سے فجر کی نماز بھی قضا ہو سکتی ہے !یہ کہہ کر اس کے ابو اپنے کمرے کی طرف چل دیئے۔
صبح اٹھ کر معاذ نے بتایا کہ اس نے بے چینی سے کتاب کی فہرست دیکھی۔ کتاب کے انڈکس میں ’’فرعون موسیٰ کی لاش(فرعون ممی)کے الفاط دیکھے اور متعلقہ صفحات نکال کر انہیں پڑھنے لگا۔ جیسے جیسے وہ پڑھتا گیا ویسے ویسے اس پر حیرتوں اور انکشافات کے نئے دروازے کھلتے چلے گئے۔ اس نے جلدی سے کتاب کے مصنف کا نام پڑھا تو ایک اور حیرت ہوئی ‘مصنف کا نام غیر مسلموں کا سا تھا۔ پندرہ بیس منٹ کے مطالعے کے بعد وہ اپنے کمرے کی طرف دوڑا ۔ ان نے رابن کو ای میل کرنے کے بجائے اس سے انٹرنیٹ پر گفتگو(چیٹنگ) کو مناسب خیال کیا۔ چند لمحو ں کے بعد اس کا رابطہ رابن سے ہو چکا تھا۔
معاذ نے لکھا ’’مسٹر رابن ‘میرے پاس آپ کے لیے بڑی دلچسپ خبریں ہیں‘ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ مشہور ماہر آثار قدیمہ اور یت نے 1896ء میں فرعون کی ممیاں دریافت کی تھیں۔
رابن نے جواب دیا ’’تمہارا مطلب ہے کہ مصر کے ان حکمرانوں کی حنوط شدہ لاشیں جنہیں زمین دوز مقبروں میں رکھا جاتا تھا۔ ‘‘بالکل وہی پھر ایسا ہو ا کہ 1907ء میں مصر کے عجائب گھرمیں رکھی فرعون کی حنوط شدہ لاش کو پھپھوندی لگ گئی۔ عجائب گھر کی انتظامیہ نے اس ممی کا معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس ممی کے اوپر کپڑے کی پٹیاں لپٹی ہوئی ہیں ان پر سمندری نمک موجود ہے!‘‘ یہاں تک لکھ کر معاذ نے رابن کے جواب کا انتظار کیا۔ اس کی توقع کے مطابق فوراً رابن نے جواب میں لکھا ’’یہ کیسے ممکن ہے؟ مصری تو ان لاشوں کو اچھی طرح صاف کر کے اور پھر ان پر خاص قسم کا مسالا لگا کر انہیں محفوظ کرتے تھے تاکہ لاشیں خراب نہ ہوں اور صحیح حالت میں رہیں ! اس طرح لاش میں نمک کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یہی سوال ماہرین کے سامنے تھا۔ انہوں نے اس کا یہ نتیجہ نکالا کہ نمک لاش کے اندر سے کپڑے کی پٹیوں میں آیا ہے اور لاش میں نمک اس لیے تھا کہ جس فرعون کی یہ لاش ہے اس کی موت سمندر میں ڈوبنے سے ہوئی ہے اور اب سمندر میں ڈوب کر ایک ہی فرعون ہلاک ہو ا تھا جس کا نام ہے ’’منفتا‘‘(مرنپتہ)یہ اسی فرعون کا نام ہے جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کیا تھا۔ یوں قرآن مجید کی اس آیت میں کیا گیا دعویٰ سچ ثابت ہو گیا جس کے متعلق تم نے سوال کیا تھا۔
معاذ کی اس بات کا رابن نے کئی لمحوں تک کوئی جواب نہ دیا ۔ ظاہر ہے یہ بہت ہی حیران کن بات تھی۔
معاذ نے بتایا کہ رابن ایک پڑھا لکھا نوجوان تھا اور وہ اس بات سے اچھی طرح واقف تھا کہ فرعون نے حضرت موسیٰ ؑ اور اس کی قوم کا پیچھا کیا تھا۔ حضرت موسیٰ ؑ کے راستے میں سمندر آگیا تو اللہ نے انہیں حکم دیا کہ اپنی لاٹھی سمندر میں ماریں۔ لاٹھی مارنے سے سمندر میں راستہ بن گیا۔ اور حضرت موسیٰ ؑ اور ان کی قوم اس میں گزر گئی۔ فرعون اپنی فوج کے ساتھ ان کے تعاقب میں آیا۔ وہ وہ ابھی راستے ہی میں تھا کہ سمندر اپنی پہلی حالت میں آگیا اور وہ لشکر سمیت سمندر میں غرق ہو گیا۔ اتنی کہانی بائبل میں بھی بیان ہوئی تھی لیکن آگے کے حالات صرف اور صرف قرآن میں بیان ہوئے تھے۔ قرآن میں ہے کہ اس نے مرتے وقت حضرت موسیٰ ؑ پر ایمان لانے کا اعلان کیا تھا لیکن موت کے وقت لایا گیا ایمان اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتے ۔ اس لیے اس کی لاش کو عبرت کے لیے قیامت تک محفوظ رکھنے کا بھی اعلان کیا اور قرآن کا یہ اعلان اس انکشاف سے درست ثابت ہوا۔ یہ بات رابن کے لیے بڑی ہی حیران کن تھی۔
آخر کئی لمحوں کے انتظار کے بعد اس کا جواب آیا’’تم مجھے اس کتاب کا نام بتاؤ جہاں یہ ساری تحقیق بیان ہوئی ہے‘‘۔ معاذ نے کہا’’مسٹر رابن میں تمہیں ضرور بتاؤں گا لیکن پہلے مزید جان لو کہ 1975ء میں فرعون کی لاش کو فرانس سے لے جایا گیا۔ وہاں اس کا مزید مطالعہ کیا گیا اور ماہرین نے یہ رپورٹ دی کہ جس فرعون کی یہ ممی ہے وہ سمندرمیں ڈوب کر ہلاک ہوا تھا۔ یہ بات اس ممی کے جسم میں موجود نمک اور کان کے پردوں میں موجود کیمیکلز سے معلوم ہوئی‘ رہی ثبوت کی بات تو تم ’’مورس باکائے‘‘ کی مشہور کتاب’’بائبل اور سائنس ‘‘ میں یہ ساری تحقیق پڑھ سکتے ہو اور اب تو قاہرہ کے عجائب گھر میں اس لاش کی نمائش جاری ہے۔یعنی قرآن کے وعدے کے مطابق وہ عبرت کا نشان بنی ہوئی ہے۔
رابن نے معاذ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ کتاب پڑھ کر اسے جواب دے گا۔اس کے بعد رابطہ کٹ گیا۔
صرف دو دن بعد رابن نے انٹرنیٹ کے ذریعے معاذ سے خود رابطہ کیا۔ اس نے لکھا’’پیارے دوست تمہاری بات درست ثابت ہوئی میں نے نہ صرف مورس بکا ئے کی کتاب کے متعلقہ حصوں کا مطالعہ کیا ہے بلکہ انٹرنیٹ پر اس موضوع پر بہت ساری سائٹس بھی دیکھی ہیں۔ ان سے تمہاری دی ہوئی تمام معلومات کی تصدیق ہو گئی چنانچہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ قرآن واقعی اللہ کا کلام ہے اور محمدؐواقعی اللہ کے سچے نبی ہیں۔
معاذ کی والدہ کی یہ کہانی سننے کے بعد میرے ذہن میں ایک اور سوال آیا۔ وہ یہ کہ مصر میں فرعون کی ممیوں کی دریافت تو اٹھارہویں صدی عیسوی کا واقعہ ہے اس سے پہلے تو کسی کو معلوم ہی نہ تھا کہ فرعون کی ممیاں یوں عجائب گھروں میں دیکھنے کے لیے دستیاب ہوں گی۔ ان حالات میں قرآن مجید کے مفسرین اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کے متعلق کیا کہتے تھے؟اس سوال کا جواب پانے کے لیے میں نے مختلف تفاسیر دیکھنا شروع کیں تو بڑی حیرت ہوئی ۔ مثلاً ابن کثیر اپنی تفسیر میں سورۃ یونس کی مذکورہ آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں۔
’’اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اب ہم تیری روح ہی کو نہیں تیرے جسم کو محفوظ کرتے ہیں تا کہ بعد والوں کے لیے وہ عبرت بن جائے۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی قوم نے فرعون کی موت کے بار ے میں شک کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے دریاکو حکم دیا کہ فرعون کے جسد کو جس پر لباس بھی موجود ہے خشکی پر پھینک دے تا کہ لوگوں کو فرعون کی موت کا حقیقی ثبوت مل جائے۔ تفسیر ابن کثیر(اردو)جلد دوم
ایک جدید مفسر اس آیت کا حاشیے میں لکھتے ہیں۔
’’قدرت کے انتقام کی ایک نشانی یہ ظاہر ہوئی کہ فرعون کی لاش کو نشان عبرت بنانے کے لیے سمندر نے ساحل پر پھینک دیا۔ مصر میں لاشوں کو ممی کر کے محفوظ کرنے کا رواج تھا چنانچہ اس لاش کو بھی محفوظ کر لیا گیا تا کہ ہر زمانے کے فرعون اس زمانے کے فرعون سے عبرت پکڑیں۔
اس مطالعے سے ثابت ہوتا ہے کہ مفسرین قرآن مجید کے اس دعوے کا یہی مطلب سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ فرعون کی لاش کو بعد کے لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بنائے گا لیکن قرآن مجید کا یہ دعویٰ اس شان سے پورا ہو گا۔ بھلا کس کو معلوم تھا!

Tuesday, August 30, 2016

SURAJ KA PANI ME DUBNA AUR HAZRAT ZULQARNAIN A.S

اعتراض : سورۃ کہف کی آیت 86 

حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ مَغۡرِبَ الشَّمۡسِ وَجَدَہَا تَغۡرُبُ فِیۡ عَیۡنٍ حَمِئَۃٍ

یہاں تک کہ جب وہ غروب آفتاب کے موقع پر پہنچے تو اسے ایک سیاہ چشمہ میں ڈوبتا ہوا محسوس کیا.( ترجمہ مولانا عبدالماجد دریابادی )
سورج کے گدلے پانی میں ڈوب جانا یقیناً غیر سائنسی بات ہے۔

تبصرہ :
یہاں عربی لفظ " وَجَدَ " استعمال ہوا ہے۔ جس کامطلب ہے نظر آنا۔ سو اللہ سبحانہ و تعالی یہاں فرما رہے ہیں کہ ذوالقرنین کو ایسا نظر آیا۔ اس آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ: "یہ (سورج) پانی میں ڈوب رہا ہے"۔ بلکہ بتایا گیا ہے کہ حضرت ذوالقرنین کو ایسا لگا۔
اگر میں کہوں کہ دوسری جماعت کے ایک بچے نے کہا کہ دو اور دو پانچ ہوتے ہیں تو کیا آپ کہیں گے کہ " یہ کہتا ہے کہ دو اور دو پانچ ہوتے ہیں " یہ میں نہیں کہ رہا بلکہ اپ کو بتا رہا ہوں کہ بچہ کیا کہ رہا ہے۔ میں غلط نہیں کہ رہا بلکہ وہ بچہ غلط کہ رہا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ کوئی پر اعتراض کرے اور کہے کہ ہم باتیں فرض کررہے ہیں اور ہمیں الفاظ کو ان کے ظاہر معانی میں ہی قبول کرنا چاہیئے۔ چلیے اس نہج پر تجزیئے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ جب ہم روز مرہ گفتگو میں سورج کے نکلنے اور غروب ہونے کا ذکر کرتے ہیں تو کیا ہم واقعی سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کا ذکر کررہے ہوتے ہیں؟ اخبارات میں ہم سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کے اوقات دیکھتے ہیں تو کیا اخبارات واقعی سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کا ذکر کررہے ہوتے ہیں؟ سائنسی طور پر ہم سب جانتے ہیں کہ سورج نہ تو نکلتا ہے اور نہ ڈوبتا ہے، دراصل یہ زمین کی گردش ہوتی ہے جس کے سبب ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے۔ تو کیا یہ اخبارات غلط بیانی کررہے ہوتے ہیں؟

جب میں لفظ 
Disaster استعمال کرتا ہوں تو میری مراد ایک بڑا حادثہ ہوتی ہے۔ یہ لفظ انہی معانی میں استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے لغوی معانی " ایک منحوس ستارے " کے ہوتے ہیں تو کیا جب یہ لفظ استعمال کیا جائے تو ہمیں اس کے لغوی معانی ہی مراد لینے چاہئیں؟
لیکن بات یہ ہے کہ زبان کا ارتقا اسی طرح ہوا ہے۔ سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کو بھی اسی طرح دیکھنا اور سمجھنا چاہیئے اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سورۃ کہف کی اس آیت میں سورج کے ڈوبنے سے کیا مراد ہے؟ یہاں کوئی بات سائنس کے خلاف نہیں ہے۔
قدیم تفاسیر کا بیان:
امام البیضاوی کے مطابق، وہ شخص جس نے یہ منظر دیکھا شاید سمندر کے کنارے پر پہنچا اور کیوں کہ اسکی حدِ نگاہ تک صرف پانی تھا اور اسی وجہ سے اس نے کہا کہ "اس نے اسے (سورج کو) ڈوبتا ہوا پایا" نہ کہ "یہ (سورج) ڈوبا"
(البیضاوی، انوار التنزیل و اسراد التاویل جلد 3 صفحہ 394 شائع کردہ دار الاشرف، قاہرہ، مصر)۔
امام فخر الدین الرازی کہتے ہیں کہ: ذوالقرنین علیہ السلام جب مغرب کی طرف اتنا دور پہنچے کہ کوئی آبادی باقی نہ رہی تو انھوں نے سورج کو ایک تاریک چشمے میں ڈوبتا ہوا پایا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ سورج واقعی ہی اس چشمے میں ڈوب گیا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے سمندر میں سفر کرنے والے زمین نہ دیکھ پا رہے ہوں اور بوقت غروب سورج پانی میں ڈوبتا ہوا محسوس ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں سورج سمندر سے بہت دور اسکے پیچھے غروب ہوتا ہے۔(الرازی التفسیر الکبیر جلد 21 صفحہ 166
امام ابنِ کثیر کہتے ہیں کہ ، "جب وہ سورج غروب ہونے کی جگہ پہنچ گیا" مطلب کہ انھوں نے ایک خاص راستہ اختیار کیا اور مغرب کی طرف ایسی جگہ پہنچے جہاں زمین کا اختتام ہو گیا(اور سمندر کا آغاز ہوا)"۔جہاں تک آسمان میں سورج کے غروب ہونے کی جگہ تک پہنچنے کا تعلق ہے ایسا ناممکن ہے۔جہاں تک واقعات بتانے والوں اور قصہ خواہوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ زمین میں ایک خاص وقت کے لیے چلتے رہے جس کے بعد سورج انکے پیچھے غروب ہوتا تھا ، ایک غیر حقیقی بات ہے اور اس میں زیادہ تر اہلِ کتاب کی داستان سرائی اور کاذبوں کی اختراعات ہیں۔"اس نے دھندھلے پانی کے ایک چشمے میں اسے (سورج کو) ڈوبتے دیکھا" کا مطلب ہے کہ اس نے اپنی بصارت کے مطابق سورج کو سمندر میں غروب ہوتے دیکھا اور ایسا ہر اس شخص کو نظر آتا ہے جو ساحل ِ سمندر پر ہو،کہ جیسے سورج پانی(سمندر) میں اُتر رہا ہو۔ (ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، جلد 5، صفحہ 120، شائع کردہ مکتبات الایمان، منصورہ، مصر)۔
مجھے یقین ہے کہ یہ جواب مشنریوں اور ملحدین کی طرف سے کی جانے والی من گھڑت تشریح کورد کرنے کے لیے کافی ہے۔ اور اللہ ہی تمام معاملات میں انصاف کرنے والا ہے۔
تحریر ہشام عزمی



DEBATE : SPERM KAHA PAEDA HOTA HAI ? (URDU)


فَلۡیَنۡظُرِ الۡاِنۡسَانُ مِمَّ خُلِقَ ﴿۵﴾خُلِقَ مِنۡ مَّآءٍ دَافِقٍ ۙ﴿۶﴾یَّخۡرُجُ مِنۡۢ بَیۡنِ الصُّلۡبِ وَ التَّرَآئِبِ﴿۷

پھر انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیاگیا۔ ایک اُچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کی درمیان سے نکلتا ہے ______!
وہ کہتے سوال گندم جواب چنا __
اس میں لفظ آ رہا ہے
یخرج __ خارج ہو نا ، نکلنا ...
اور اک جناب صاحب نے نیچے اسکی توجہیح دی کہ کیا مردانہ نطفہ کمر اور سینے کی ہڈی کے بیچ پیدا ہوتا ہے ___؟
لیکن انکا یہی آنناً فانناً استدلال بھی ملحوظ ِ خاطر ہے کہ
سب سےپہل تو یہ نطفہ ریڑھ کی ہڈی ہی کے ریفلیکس سے خارج ہوتا ہے ....
اسکا سائینس خود اپنی بات رقم.کرتے ہوئے کہتی ہے اگر آپ کیہیں کہ یہ پیدا کیسے اور کہاں ہوتا ہے __ وہ جو سمجھتے سپرم ٹیسٹس کی بالز میںنپیدا ہوتا ہے ..جبکہ سائینس اب کیا کہتی ہے سنیے
جُنینی مراحل یعنی اسے انگریزی میں 
embryonic stages کہتے میں مردانہ وزنانہ تولیدی اعضاء یعنی فوطے testicle اور Ovary گردوں کے پاس سے ریڑھ کی ہڈی اور گیارہوں اور بارہویں پسلیوں کے درمیان سے نموپذیر ہونا شروع کرتے ہیں۔ بعدازاں وہ کچھ نیچھے اُترآتے ہیں ، زنانہ تولیدی غدود جسے gonads یعنی بیضہ دانیاں پیڑو pelvis میں رُک جاتی ہے جبکہ مردانہ اعضائے تولیدinguinal canal کے راستے خص دانی scrotum تک جاپہنچتے ہیں۔ حتٰی کہ بلوغت میں بھی جبکہ تولیدی غدود کے نیچے جانے کا عمل رک چکا ہوتا ہے ان غدود میں دھڑوالی بڑی رگ Abdominal aorta کے ذریعے خون اور اعصاب کی رسانی کا سلسلہ جاری رہتاہے۔ دھیان رہے کہ دھڑ والی بڑی رگ اس علاقے میں ہوتی ہے جو ریڑھ کی ہڈی اور پسلیوں کے درمیان ہوتا ہے ۔ لمفی نکاس (Lymphatic drainage اور خون کا وریدی بہائو بھی اس سمت ہوتاہے______!!یعنی یہی بیچ سے اچھلتا ہوا پانی آتا ہے
یہ جو اوپر میں ساینسی استدلال میں نے رکھا اسے ہوبہو کسی بھی جینات کی کتاب سے نکال کے پڑھا جا سکتا ہے نہ کہ یہ کسی مومن کی اپنی سائینسی توجہیع ہے ____ اسکے مصداق اگر اسے میں زرہ تھوڑا اور آسان کر دو‍ تو اسکا مطلب یوں ____!!
ابتدائ مراحل میں سپرم اور ایگ گردوں کو ملانے والی ٹیوب کے ساتھ پسلیوں (جوکہ سینے اور ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ جڑا ہوا چھجا ہے) کے ہڈیوں کے بیچوں بیچ اپنا وجود پیدا کرنا شروع کرتے ٹیس ٹیز میں جب لیکوڈ پہنچتا ہے تو وہ اسی ٹیوب کے راستے سکارٹم کے دو گول دائروں میں آتا ہے .. جہاں وہ ڈویزن کے مراحل سے گزرتا ہے _____!!
اب اسکو زرہ میں نکات میں الگ الگ کوڈ کر کے سامنے رکھتا ہوں آپکے _
95
to 98% accurate! Only 2-5% of the semen is contributed by the testicles. The rest is produced in the glands located in the pelvic cavity.
یعنی دو سے پانچ فیصد سیمن ٹیسٹیکل بالز کی اشتراکیت سے بنتا ہے __ پچانوے سے لے کے اٹھانوے فیصد پلیوس کیویٹی کے ساتھ میں لگے گلینڈز میں __ اور پیلوس کیویٹی ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ متصل ہے جو اسے وہاں گلینڈز کی مدد سے اوپر ہی پیدا کر دیتا ہے
During coitus semen is ejaculated from the two storage areas called the seminal vesicles, and NOT FROM THE TESTICLES.
یعنی سیمنی ویزیکلز وہ ویزکلز ہیں جو ہڈی سےجُڑی ہیں ___ یعنی خروج کے لمحوں میں سیمن باہر آتا ہے پہلے ویزیکل ٹیوب جو اوپر ہڈی کے ساتھ جڑی ہے نہ کہ ٹیسٹیکل سے ___
اگلے لمحہ __!
اب قرآن کہتا ہے کہ ہڈیوں کے بیچ سے آتا ہے ..اچھل کر
اسکی سائینس یوں تو جیح پیش کرتی ہے.
The
Expulsion is a spinal cord reflex that is mediated by somatic motor components of the peri Neal branch of the pudendal nerve that originate from nerve roots S2–S4 as well as by concurrent relaxation of external urethral sphincter and urogenital
We can see from the statement above that the expulsion is a spinal cord reflex. Without the involvement of the spinal cord it would be less likely for the process to occur.
In men with spinal cord injury, the ability to ejaculate is less common than the ability to obtain an erection. The rate of ejaculation varies depending on the nature and location of the neurological injury. In complete upper motor neuron lesions, the ejaculation rate is estimated at 2 percent. In incomplete upper motor neuron lesions, the ejaculation rate is estimated to be somewhat higher at approximately 32%. Many men who are able to ejaculate experience retrograde ejaculation into the bladder, some may experience dribbling of semen.
Apparently people who have spinal cord injuries have extreme difficulties in ejaculating and in case they do many experience a back flow of semen into the bladder or mere dribbling of semen. This does show that an injury to the spinal cord does have a profound effect to the ejaculation process
یعنی سیمن کا نزول ہونا ..
ریڑھ کی اور سینے کی ہڈی کے ریفلیکس یعنی جھٹکنے سے پیش آتا ہے ___بیچوں بیچ سے اسکے بغیر یہ ممکن نہیں جنکی بیک بون میں انجری ہے نروز انجرڈ ہیں وہ اچھلتا ہوا نطفہ یخرج کرنے کے عمل سے قاصر ہیں ___!
اس آیت فری تھنکر گروپ میں دی گئ اس میں دو لفظ استعمال ہوئے ہیں
ایک ____!
صلب ___! ریڑھ کی ہڈی جسے انگش میں 
Lions کہا جاتا ہے ___!
دوسرا ___!
الترب ___!(پسلیاں )
قابل غور لفظ ہے ریڑھ کی مین ہڈی لوائن
میڈیکل ساٰئنس اسے اپنے لفظوں میں بیان کرتے ہوئے کہتی ہے
the word loins refers to:
The region of the hips, groin, and lower abdomen.
b. The reproductive organs.
یعنی جب لوائن ریڑھ کی ہڈی کا ذ کر آتا ہے تو اسکی ٹیل پہ مراد ہپ لوئر ریجن اور تولید شامل ہو جاتے ہیں ......الگ تھلگ ہرگز نہیں
So
Sperm is produced in the testes and is then transfered to the seminal vesicles awaiting ejaculation, the=is accounts for 5 % of the ejaculate, the rest of the ejaculate comes from the seminal vesicles 80%,with the وprostate gland and the bulbourethral and urethral glands producing the rest of the ejaculate . At the time of ejaculation, all this (semen, which contains the sperm) is released
یعنی سیمن مطلب سپرم کی پانچ فیصد جمع خروج مردانہ بالز جسے ٹیسٹیز کہتے ہیں وہاں سے ہوتی ہے باقی اسی فیصد جمع خروج سیمینل ویزیکل جو ٹیوب کے زریعے ریٹھ کی ہڈ ی کی ٹیل کے ناطے سے جڑی ہے سو وہیں سے خروج کا عمل شروع ہوتا ہے___!
The seminal vesicles are anterior to the sacrum and coccyx (lower back, loin) and the ribs are anterior to the seminal vesicles
If one was to draw a line from the tip of the coccyx, to the upper portion of the seminal vesicle _ either one of the two_ and extend the line forward it will catch the ribcage.The seminal vesicles from which the semen spurts out during coitus, lies between the ribs and the coccyx (backbone)!
پس ثابت ہوا کہ
نطفہ ریڑھ کی ہڈی سے جڑے ویزیکلز سے ہی یخرج کاعمل طئے کرتا ہوا ٹیوب کے راستے باہر آتا ہے ________!
اب غالب کمال جیسے بندوں سے ملحد سائینس سیکھیں گے تو واقعی میں کمال ہو گا ..
غالب کمال صاحب نے کہا سپرم ناکارہ ہو جاتے ہیں اگر درجہ حرارت 37 ڈگری سےدو ڈگری سے کم درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی سپرم کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے سو ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ وہ زندہ نہیں رہ سکتے
لیجئے کمال صاحب سائینس کی اپنی زبان میں
the temperature dependence of overall rotational diffusion and local backbone motion...
بیک بون کا نارمل ٹیمپریچر چوتیس ڈگری ہوتا ہے کسی معالج سے بھلے اپنی بیک بون کا ٹمریچر ماپ کر تسلی کر لیں یا بُک میں کوریئر کر دوں گا اس متعلق ___ کجا یہاں بیک بون ٹیل پہ آکے مزید درجہ حرات نارمل ہو جاتا ہے
سو سپرم کو خطرہ نہیں جناب کی عقل کو ہے __
جو کچھ نہیں کرتے وہ کمال کرتے ہیں !
تحریر مہران درگ



Monday, August 29, 2016

KYA SCIENCE ISLAM KE KHILAF HAI >?

سائنس اور اسلام
تحریر : محمّد سلیم

لوگ عموماً سمجھتے ہیں کہ اسلام سائنس کے خلاف ہے ۔ مگر جب میں سائنسی نظریات پہ نظر ڈالتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ اسلام سائنس کے خلاف نہیں بلکہ 
سائنس اسلام کے خلاف ہے ۔

سائنس سے میری مراد یہاں ایسے غیر مسلم سائنس دان ہیں جو اسلام سے شدید نفرت کرتے ہیں ۔ اسلام کو نیچا دکھانے کے لئے انہبں اگر کسی غیر سائنسی رویے کو اپنانا پڑے تو وہ اس سے بھی نہیں چوکتے ۔ اس مضمون میں میں جہاں سائنس کا لفظ استعمال کروں گا اس سے مراد سائنس دان ہی ہوں گے ۔
سائنس کو اگر مریخ پہ پانی کے آثار مل جائیں تو وہاں زندگی کی تلاش شروع ہو جاتی ہے ۔ کیوں کہ جہاں پانی ہو وہاں زندگی کا ہونا غبر یقینی نہبں ۔ بغیر یقینی آنکھ سے دیکھے محض شواہد کی بنیاد پر زندگی کا تصور کر لیا جاتا ہے ۔

مگر انہی اصولوں پر خدا کی تلاش یا تصور سائنس کے لئے محال ہے ۔ ایسے میں سائنس کی ایک اور پالیسی سامنے آتی ہے کہ جو چیز جب تک سائنس کے مشاہدے میں نہ آجائے اس وقت تک سائنس اس چیز کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی ۔ سائنس کے مطابق خدا کی تخلیقات خدا کے وجود کا ثبوت نہیں ۔ جب تک خدا خود زمین پہ آکر اپنا دیدار نہ کروا دے مگر انہی سائنس دانوں کو اگر پچاس لاکھ سال پرانا کوئی دانت مٹی میں دبا مل جائے تو اس پہ پورا ہوموسیپیئن یا نانڈراتھیال کھڑا کر لیتے ہیں ۔ مشاہدوں پر مخلوقات کا تصور سائنس کے لئے عمومی بات ہے مگر انہی مشاہدوں پر خدا کا تصور سائنس کے لئے ناممکنات میں سے ہے ۔
جو چیز سائنس کے مشاہدے میں نہ آسکے وہ چیز اپنا کوئی وجود نہیں رکھتی ۔ جادو ۔ معجزے اور جنات انہی چیزوں میں شامل ہیں ۔ اسی اصول پر اگر ہم نیوٹن کے لاء آف گریویٹی کو پرکھیں تو اندازہ ہو گا کہ گریویٹی نیوٹن کی دریافت نہیں بلکہ ایجاد تھی ۔ کیوں کہ نیوٹن کے لاء آف گریویٹی کو متعارف کروانے سے ایک دن پہلے لاء آف گریویٹی کا سائنس کے پاس کوئی مشاہدہ نہ تھا ۔ اور جس چیز کا سائنس کے پاس کوئی مشاہدہ نہ ہو اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا ۔ جس طرح خدا کا سائنس کی نظر میں کوئی وجود نہیں ۔ اور جو چیز وجود ہی نہ رکھتی ہو اسے وجود بخشنے والا اس کا خالق اور موجد کہلاتا ہے نا کہ دریافت کنندہ ۔ یعنی سائنس کے اسی اصول پر نیوٹن لاء آف گریویٹی کا خالق اور موجد تھا ۔

اگر ہم اس اصول کو تمام سائنسی دریافتوں پر اپلائی کر دیں تو وہ سب ایجادات میں تبدیل ہو جائیں گی ۔ تاوقتیکہ سائنس اس معاملے میں اپنی اصلاح کا اعلان نہ کرے ۔
بہتر رویہ یہ ہوتا کہ سائنس کچھ معاملات میں اپنی کم فہمی کا ادراک کرلے کہ جس چیز کا مشاہدہ سائنس کے پاس نہ ہو اس کا وجود تو ممکن ہے مگر سائنس ابھی اس معیار پر نہیں پہنچی کہ اس پر گواہی دے سکے ۔ مگر یہ رویہ سائنس کو خدا کا تصور بھی دے دے گا جو سائنس کے لئے لمحۂ فکریہ ہے ۔

پھولوں میں رنگ کون بھرتا ہے ؟ سائنس کو نہیں پتہ مگر خدا کے سوا کسی نے بھی بھر دئے ہوں گے ۔

پھولوں سے خوشبو کیوں آتی ہے ؟ سائنس نہیں جانتی مگر اس میں خدا کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا ۔
پھلوں کے ذائقے ۔ انسان کی تخلیق ۔ انسان کا اندرونی جسمانی نظام ۔ یہ سب باتیں کوئی نہ کوئی سائنسی وجہ رکھتی ہوں گی ۔ مگر خدا نہیں ہو سکتا ۔
لاکھوں سال لگتے ہیں ایک بندر کو ارتقا کے مراحل سے گزر کر انسان بننے میں مگر ایک ناپاک قطرہ ماں کے پیٹ میں محض نو مہینے میں انسانی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ پتہ نہیں اس قطرے میں سے انسانی اعضا برامد ہو جاتے ہیں یا ماں کے پیٹ میں پہلے سے دگنے انسانی اعضا موجرد ہوتے ہوں گے جن میں سے آدھے وہ اپنے بچے کو عنایت کر دیتی ہے ۔ چار مہینے میں وہ مردہ قطرہ زندگی کی نمو پا کر حرکت میں آجاتا ہے اور انسان الٹراساؤنڈ مشینوں کی مدد سے محض اس کی حرکات دیکھ کر اپنی ذہانت پہ دل ہی دل میں خوش ہوتا رہتا ہے کہ دیکھو میں کتنا ترقی یافتہ ہوں کہ میں ماں کے پیٹ میں بچے کو حرکت کرتے دیکھ سکتا ہوں ۔ بچہ کیسے پیدا ہوتا ہے اس معاملے میں سائنس کے پاس بھی اتنا ہی علم ہے جتنا میری گلی میں گٹر صاف کرنے کے لئے آنے والے جمعدار کے پاس ۔ مگر بچہ کیوں پیدا ہوتا ہے ۔ اس معاملے میں جمعدار اور سائنس کی جہالت میں کوئی واضح فرق نہیں ۔

ﷲ تعالیٰ قرآن میں سات آسمانوں کا ذکر کرتا ہے ۔ سائنس کو آج تک ایک بھی نہیں ملا لہٰذا آسمان موجود ہی نہیں ۔ انسان کی رسائی چاند اور مریخ سے آگے نہ جا سکی ۔ مگر جس آسمانِ دنیا پر ستارے ٹانکے گئے ہیں وہی ستارے جو سورج سے بھی لاکھوں نوری سال کی مسافت پہ ہیں ۔ اس آسمانِ دنیا کا کوئی وجود نہیں ۔ یہ ستارے اگر ٹمٹما نہ رہے ہوتے تو سائنس ان کا بھی انکار کر ڈالتی ۔ پھر اگر کسی سائنس دان کو اگر دوربین سے کوئی ستارہ دکھ جاتا تو وہ اس کا دریافت کنندہ نہیں بلکہ خالق بن بیٹھتا ۔ کیوں کے سائنس ہی کے مطابق ایک دن پہلے تک اس کا کوئی وجود ہی نہ تھا تو جس نے ڈھونڈ لیا وہ اسی کا ۔

سائنس کے مطابق انسان لاکھوں سالوں سے اس دنیا میں مقیم ہے مگر آج تک نہیں جانتا کہ سمندر میں مچھلیوں کی کتنی قسمیں بستی ہیں ۔ روز نت نئی مچھلیاں ایجاد ہو رہی ہیں ۔ مگر سوری ۔ یہاں ایجاد کا لفظ نہیں آئے گا ۔ کیوں کہ یہاں سائنس کی تھیوری بدل جاتی ہے ۔ سائنس اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ زمین پر لاکھوں سال جوتیاں چٹخانے کے باوجود ہمیں زمین پر موجود تمام مخلوقات کا علم نہیں ۔ مگر کائنات جس میں ہم چاند اور مریخ سے آگے کبھی نہ گئے اس کے بارے میں ہمیں پکا پتہ ہے کہ وہاں آسمان نہیں ہو گا ۔ ﷲ ستارے شیاطین کے پیچھے کیسے چھوڑ سکتا ہے یہ تو ممکن ہی نہیں ۔

کسی سیارے پہ سائنس کو انسانی فضلے کے شواہد مل جائیں تو پوری زمین کے سائنس دان اپنی ساری مشینری اس انسان کو ڈھونڈنے میں استعمال کر ڈالیں گے ۔ کسی کے ذہن میں کبھی بھولے سے بھی خیال نہ آئے گا کہ انسانی فضلہ وہاں خودبخود بھی تو بن سکتا ہے ۔ ممکن ہے مادہ اور ضد مادہ آپس میں ٹکرا کر ختم ہو گئے ہوں اور فضلے کی داستان چھوڑ گئے ہوں ۔ کسی بگ بینگ کے نتیجے تخلیق پا گیا ہو ۔ جی نہیں ایسا کیسے ممکن ہے ۔ سائنس اس بات کو نہیں مانتی ۔ خودبخود تو صرف کائنات وجود میں آ سکتی ہے ۔ چاند سورج ستارے وجود۔میں آسکتے ہیں ۔ زمین وجود۔میں آسکتی ہے ۔ انسان وجود میں آسکتا ہے ۔ مگر انسانی فضلے جیسی عظیم ترین چیز خودبخود کیسے وجود۔میں آسکتی ہے ؟

لاکھوں سال پرانے غاروں میں سائنس انسانی ہاتھوں کے بنے نقش و نگار کا پتہ لگاتی ہے اور اس پہ کچھ معترضین تصویریں دکھا دکھا کر ہمیں یقین دلاتے پھرتے ہیں کہ دیکھو انسان بھی موجود اور خود ساختہ مذاہب بھی موجود ۔ یہ تو بہت بڑا ثبوت ہے ۔ ظاہر ہے انسان تھا تو نقش و نگار بنائے نا ۔ کسی بگ بینگ تھیوری کے نتیجے میں نقش و نگار تھوڑی بن سکتے ہیں ۔ صرف کائنات بن سکتی ہے ۔