Monday, August 29, 2016

KYA SCIENCE ISLAM KE KHILAF HAI >?

سائنس اور اسلام
تحریر : محمّد سلیم

لوگ عموماً سمجھتے ہیں کہ اسلام سائنس کے خلاف ہے ۔ مگر جب میں سائنسی نظریات پہ نظر ڈالتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ اسلام سائنس کے خلاف نہیں بلکہ 
سائنس اسلام کے خلاف ہے ۔

سائنس سے میری مراد یہاں ایسے غیر مسلم سائنس دان ہیں جو اسلام سے شدید نفرت کرتے ہیں ۔ اسلام کو نیچا دکھانے کے لئے انہبں اگر کسی غیر سائنسی رویے کو اپنانا پڑے تو وہ اس سے بھی نہیں چوکتے ۔ اس مضمون میں میں جہاں سائنس کا لفظ استعمال کروں گا اس سے مراد سائنس دان ہی ہوں گے ۔
سائنس کو اگر مریخ پہ پانی کے آثار مل جائیں تو وہاں زندگی کی تلاش شروع ہو جاتی ہے ۔ کیوں کہ جہاں پانی ہو وہاں زندگی کا ہونا غبر یقینی نہبں ۔ بغیر یقینی آنکھ سے دیکھے محض شواہد کی بنیاد پر زندگی کا تصور کر لیا جاتا ہے ۔

مگر انہی اصولوں پر خدا کی تلاش یا تصور سائنس کے لئے محال ہے ۔ ایسے میں سائنس کی ایک اور پالیسی سامنے آتی ہے کہ جو چیز جب تک سائنس کے مشاہدے میں نہ آجائے اس وقت تک سائنس اس چیز کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی ۔ سائنس کے مطابق خدا کی تخلیقات خدا کے وجود کا ثبوت نہیں ۔ جب تک خدا خود زمین پہ آکر اپنا دیدار نہ کروا دے مگر انہی سائنس دانوں کو اگر پچاس لاکھ سال پرانا کوئی دانت مٹی میں دبا مل جائے تو اس پہ پورا ہوموسیپیئن یا نانڈراتھیال کھڑا کر لیتے ہیں ۔ مشاہدوں پر مخلوقات کا تصور سائنس کے لئے عمومی بات ہے مگر انہی مشاہدوں پر خدا کا تصور سائنس کے لئے ناممکنات میں سے ہے ۔
جو چیز سائنس کے مشاہدے میں نہ آسکے وہ چیز اپنا کوئی وجود نہیں رکھتی ۔ جادو ۔ معجزے اور جنات انہی چیزوں میں شامل ہیں ۔ اسی اصول پر اگر ہم نیوٹن کے لاء آف گریویٹی کو پرکھیں تو اندازہ ہو گا کہ گریویٹی نیوٹن کی دریافت نہیں بلکہ ایجاد تھی ۔ کیوں کہ نیوٹن کے لاء آف گریویٹی کو متعارف کروانے سے ایک دن پہلے لاء آف گریویٹی کا سائنس کے پاس کوئی مشاہدہ نہ تھا ۔ اور جس چیز کا سائنس کے پاس کوئی مشاہدہ نہ ہو اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا ۔ جس طرح خدا کا سائنس کی نظر میں کوئی وجود نہیں ۔ اور جو چیز وجود ہی نہ رکھتی ہو اسے وجود بخشنے والا اس کا خالق اور موجد کہلاتا ہے نا کہ دریافت کنندہ ۔ یعنی سائنس کے اسی اصول پر نیوٹن لاء آف گریویٹی کا خالق اور موجد تھا ۔

اگر ہم اس اصول کو تمام سائنسی دریافتوں پر اپلائی کر دیں تو وہ سب ایجادات میں تبدیل ہو جائیں گی ۔ تاوقتیکہ سائنس اس معاملے میں اپنی اصلاح کا اعلان نہ کرے ۔
بہتر رویہ یہ ہوتا کہ سائنس کچھ معاملات میں اپنی کم فہمی کا ادراک کرلے کہ جس چیز کا مشاہدہ سائنس کے پاس نہ ہو اس کا وجود تو ممکن ہے مگر سائنس ابھی اس معیار پر نہیں پہنچی کہ اس پر گواہی دے سکے ۔ مگر یہ رویہ سائنس کو خدا کا تصور بھی دے دے گا جو سائنس کے لئے لمحۂ فکریہ ہے ۔

پھولوں میں رنگ کون بھرتا ہے ؟ سائنس کو نہیں پتہ مگر خدا کے سوا کسی نے بھی بھر دئے ہوں گے ۔

پھولوں سے خوشبو کیوں آتی ہے ؟ سائنس نہیں جانتی مگر اس میں خدا کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا ۔
پھلوں کے ذائقے ۔ انسان کی تخلیق ۔ انسان کا اندرونی جسمانی نظام ۔ یہ سب باتیں کوئی نہ کوئی سائنسی وجہ رکھتی ہوں گی ۔ مگر خدا نہیں ہو سکتا ۔
لاکھوں سال لگتے ہیں ایک بندر کو ارتقا کے مراحل سے گزر کر انسان بننے میں مگر ایک ناپاک قطرہ ماں کے پیٹ میں محض نو مہینے میں انسانی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ پتہ نہیں اس قطرے میں سے انسانی اعضا برامد ہو جاتے ہیں یا ماں کے پیٹ میں پہلے سے دگنے انسانی اعضا موجرد ہوتے ہوں گے جن میں سے آدھے وہ اپنے بچے کو عنایت کر دیتی ہے ۔ چار مہینے میں وہ مردہ قطرہ زندگی کی نمو پا کر حرکت میں آجاتا ہے اور انسان الٹراساؤنڈ مشینوں کی مدد سے محض اس کی حرکات دیکھ کر اپنی ذہانت پہ دل ہی دل میں خوش ہوتا رہتا ہے کہ دیکھو میں کتنا ترقی یافتہ ہوں کہ میں ماں کے پیٹ میں بچے کو حرکت کرتے دیکھ سکتا ہوں ۔ بچہ کیسے پیدا ہوتا ہے اس معاملے میں سائنس کے پاس بھی اتنا ہی علم ہے جتنا میری گلی میں گٹر صاف کرنے کے لئے آنے والے جمعدار کے پاس ۔ مگر بچہ کیوں پیدا ہوتا ہے ۔ اس معاملے میں جمعدار اور سائنس کی جہالت میں کوئی واضح فرق نہیں ۔

ﷲ تعالیٰ قرآن میں سات آسمانوں کا ذکر کرتا ہے ۔ سائنس کو آج تک ایک بھی نہیں ملا لہٰذا آسمان موجود ہی نہیں ۔ انسان کی رسائی چاند اور مریخ سے آگے نہ جا سکی ۔ مگر جس آسمانِ دنیا پر ستارے ٹانکے گئے ہیں وہی ستارے جو سورج سے بھی لاکھوں نوری سال کی مسافت پہ ہیں ۔ اس آسمانِ دنیا کا کوئی وجود نہیں ۔ یہ ستارے اگر ٹمٹما نہ رہے ہوتے تو سائنس ان کا بھی انکار کر ڈالتی ۔ پھر اگر کسی سائنس دان کو اگر دوربین سے کوئی ستارہ دکھ جاتا تو وہ اس کا دریافت کنندہ نہیں بلکہ خالق بن بیٹھتا ۔ کیوں کے سائنس ہی کے مطابق ایک دن پہلے تک اس کا کوئی وجود ہی نہ تھا تو جس نے ڈھونڈ لیا وہ اسی کا ۔

سائنس کے مطابق انسان لاکھوں سالوں سے اس دنیا میں مقیم ہے مگر آج تک نہیں جانتا کہ سمندر میں مچھلیوں کی کتنی قسمیں بستی ہیں ۔ روز نت نئی مچھلیاں ایجاد ہو رہی ہیں ۔ مگر سوری ۔ یہاں ایجاد کا لفظ نہیں آئے گا ۔ کیوں کہ یہاں سائنس کی تھیوری بدل جاتی ہے ۔ سائنس اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ زمین پر لاکھوں سال جوتیاں چٹخانے کے باوجود ہمیں زمین پر موجود تمام مخلوقات کا علم نہیں ۔ مگر کائنات جس میں ہم چاند اور مریخ سے آگے کبھی نہ گئے اس کے بارے میں ہمیں پکا پتہ ہے کہ وہاں آسمان نہیں ہو گا ۔ ﷲ ستارے شیاطین کے پیچھے کیسے چھوڑ سکتا ہے یہ تو ممکن ہی نہیں ۔

کسی سیارے پہ سائنس کو انسانی فضلے کے شواہد مل جائیں تو پوری زمین کے سائنس دان اپنی ساری مشینری اس انسان کو ڈھونڈنے میں استعمال کر ڈالیں گے ۔ کسی کے ذہن میں کبھی بھولے سے بھی خیال نہ آئے گا کہ انسانی فضلہ وہاں خودبخود بھی تو بن سکتا ہے ۔ ممکن ہے مادہ اور ضد مادہ آپس میں ٹکرا کر ختم ہو گئے ہوں اور فضلے کی داستان چھوڑ گئے ہوں ۔ کسی بگ بینگ کے نتیجے تخلیق پا گیا ہو ۔ جی نہیں ایسا کیسے ممکن ہے ۔ سائنس اس بات کو نہیں مانتی ۔ خودبخود تو صرف کائنات وجود میں آ سکتی ہے ۔ چاند سورج ستارے وجود۔میں آسکتے ہیں ۔ زمین وجود۔میں آسکتی ہے ۔ انسان وجود میں آسکتا ہے ۔ مگر انسانی فضلے جیسی عظیم ترین چیز خودبخود کیسے وجود۔میں آسکتی ہے ؟

لاکھوں سال پرانے غاروں میں سائنس انسانی ہاتھوں کے بنے نقش و نگار کا پتہ لگاتی ہے اور اس پہ کچھ معترضین تصویریں دکھا دکھا کر ہمیں یقین دلاتے پھرتے ہیں کہ دیکھو انسان بھی موجود اور خود ساختہ مذاہب بھی موجود ۔ یہ تو بہت بڑا ثبوت ہے ۔ ظاہر ہے انسان تھا تو نقش و نگار بنائے نا ۔ کسی بگ بینگ تھیوری کے نتیجے میں نقش و نگار تھوڑی بن سکتے ہیں ۔ صرف کائنات بن سکتی ہے ۔

No comments:

Post a Comment