Sunday, August 28, 2016

AITRAAZ : KYA IDDAT KA MAQSAD HAMAL KA PATA LAGANA HAI ?


عدّت اور حمل کا پتہ لگانا 


فری فرام تھنکنگ۔
کہتے ہیں جاہلوں کے سر پر سینگ نہیں ہوتے۔ یہی حال فری فرام تھنکرز والوں کا ہے کہ نہ سائنس کا پتا نہ مزہب کا اور اعتراض ایسے کرتے ہیں جیسے کوئ ارسطو اور آین سٹائن کا بلینڈڈ فائنل ورژن ہیں۔ خیر ثاقب افضال صاحب نے اعتراض یہ کیا ہے کہ "آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر مقصد یہ جاننا ہو کہ عورت حاملہ ہے کہ نہیں اور یہ بات جدید سائنسی طریقوں سے پتا چک سکتی ہے تو عورت کو عدت کے نام پر ایک جگہ پر قید کیوں کیا جاتا ہے۔ آگے اس بات پر تمسخر اڈاتے ہوۓ کہتے ہیں "تاکہ لوگوں کو صحيح اسلام اور قرآنی سائنس کے بارے میں مکمل آگاہی ہو۔

جواب۔ 

قارئین یہ سوال ایک منطقی مغالطے پر مشتمل ہے جسے "سٹرامین آرگیومنٹ" کہا جاتا ہے۔ اس میں پہلے ایک شخص پر خود ساختہ بات منصوب کی جاتی ہے پھر اس بات کو جھٹلا کر خود کو سچا ثابت کیا جاتا ہے۔ اس میں یہ کیا گیا ہے کہ پہلے یہ خود فیصلہ کیا گیا کہ عدت کا مقصد حمل کا پتا لگانا ہی ہے پھر جدید سائنس پر اس کو رد کیا گیا جبکہ ہمارا تو یہ دعوہ ہی نہیں تھا کہ عدت کا یہی مقصد ہے۔
وفات یا طلاق کی عدت کا مقصد صرف حمل ہونے، نہ ہونے کی تصدیق نہیں ہے؛ کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو حیض والی عورتوں میں صرف ایک حیض عدت ہوتی، مکمل تین حیض یا چار مہینہ دس دن ہوتی؛ کیوں کہ ایک بار حیض آنے سے حمل نہ ہونا متعین ہوجاتا ہے، نیز قرآن کریم کی کسی آیت میں یا کسی حدیث میں یہ بات نہیں آئی کہ عدت محض حمل کی تصدیق کے لیے ہوتی ہے، یہ محض عوام کی من گھڑت بات ہے، حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حجة اللہ البالغہ میں عدت کی مختلف حکمتیں ومصلحتیں ذکر فرمائی ہیں، نیز شوہر کے انتقال پر حمل نہ ہونے کی صورت میں چار مہینہ دس دن عدت ہونا قرآن کریم سے صراحتاً ثابت ہے (سورہ بقرہ، آیت: ۲۳۴) ، اور ہم سب اللہ رب العزت کے بندے ہیں اورقرآن کریم کے منصوص احکام میں محض اپنی عقل سے رائے زنی شان بندگی کے قطعاً خلاف ہے۔ اور اسلام نے تو عدت وفات چار مہینہ دس دن ہی رکھی ہے، جب کہ زمانہ جاہلیت میں مکمل ایک سال عدت وفات ہوا کرتی تھی، بخاری ومسلم کی روایت میں ہے: حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ ایک عورت حضرت نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس آئی اور عر ض کیا: یا رسول اللہ! میری بیٹی کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے (یعنی: وہ عدت وفات میں ہے) اور اس کی آنکھ میں تکلیف ہے تو کیا ہم اسے سرمہ لگاسکتے ہیں؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، دو مرتبہ یا تین مرتبہ، آپ نے ہر مرتبہ یہی فرمایا کہ نہیں۔ پھر فرمایا: یہ تو صرف چار مہینہ دس دن ہے، جب کہ زمانہ جاہلیت میں عورت ایک سال مکمل ہونے پر عدت سے نکلنے کے لیے مینگنی پھینکتی تھی (مشکوة شریف 
ص
۲۸۸، بحوالہ: صحیحین)۔
۲۔ اس کے علاوہ جو عورت خود سے خلع لے اس کے لیے عدت صرف ایک حيض ہے۔ یہ بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ثابت بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ کی بیوی نے اپنے خاوند سے خلع کیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا ۔ 
سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1185 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2229 ) 
اسحاق بن راھویہ اورامام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کی ایک روایت میں جسے شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی نےبھی اختیار کیا ہے کا بھی یہی مسلک ہے ۔ 
ان کا کہنا ہے کہ : اس کی تائید قواعد شرعیہ کا مقتضی ہے کہ تین حیض عدت تواس لیے رکھی گئي ہے کہ رجوع کرنے کی مدت لمبی ہوسکے اورخاوند کواس مدت کے اندرغور وفکر کرنے کا موقع ملے اورعدت کے اندر رجوع کرنا ممکن ہوسکے
۳۔ اللہ سبحانہ و تعالی کی عورتوں پر عدت کے مشروع کرنے میں بہت سی حکمتیں ہیں، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ان کو اپنی کتاب (إعلام الموقعين) میں ذکر کیا ہے، اور یہ ان کی عبارت ہے: پہلی صورت: عدت کی مشروعیت میں کئی حکمتیں ہیں، جن میں سے بعض یہ ہیں: رحم کے خالی ہونے کا علم، تاکہ ایک ہی رحم میں دو شخص کا نطفہ جمع نہ ہونے پائے، کہ نسب میں گڈ مڈ ہوجائے اور فساد پیدا ہوجائے، اور اس میں کئی طرح کا فساد ہے جس سے شریعت اور حکمت منع کرتی ہے۔ 
اور ان حکمتوں ميں سے ایک: اس نکاح کی عظمت کا اظہار بھی ہے، جس سے اس کی قدر و قیمت بلند ہوتی ہے، اور اس کی شان وشوکت کا اظہار ہوتا ہے، اور ان ميں سے ایک: طلاق دینے والے کو رجوع کے لئے طویل وقت دینا بھی مطلوب ہوتا ہے، کہ شاید وہ اپنے کئے پر نادم ہو اور رجوع کے لئے سوچ و بچار کر سکے، اور ان ميں سے ایک: خاوند کے حق کو پورا کرنا ہے، اور زیب و زینت سے منع کرتے ہوئے خاوند کے فقدان کے اثر کا اظہار کرنا ہے، اسی لئے والد اور بیٹے سے زیادہ خاوند پر سوگ منانا مشروع کیا گیا ہے، اور ان ميں سے ایک یہ ہے: کہ اس میں خاوند کے حق کے لئے احتیاط اور بیوی اور بیٹے کے حق کی مصلحت ہے، اور اللہ تعالی کے حق کو قائم کرنا جو اس نے واجب کیا ہے، چنانچہ عدت میں چار حقوق ہیں، اور شارع نے موت کو عقد پورا کرنے کے قائم مقام رکھا ہے، کیونکہ نکاح کی مدت تمام عمر ہے، اس لئے اس کو مہر کی تکمیل میں دخول کے قائم مقام رکھا گیا ہے، نیز صحابہ وغیرہ کی ایک جماعت کے نزدیک گود لی گئی بیٹی کی حرمت ثابت ہونے میں اس کا دخل ہے، جیساکہ زید بن ثابت اور ایک روایت میں امام احمد کا مذھب بھی یہ ہے، اور عدت سے مقصود صرف رحم کے خالی ہونے کی تصدیق نہیں 
ہے، بلکہ اس کے بعض دیگر مقاصد اور حکمتیں بھی ہیں۔ وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔


ملحد کا اعتراض 

No comments:

Post a Comment