Wednesday, August 31, 2016

firoun ki lash


فرعون کی لاش۔۔۔ قرآن مجید کا دعویٰ اس شان سے پورا ہو گا‘ بھلا کسے معلوم تھا؟

ہم یہاں واضح کر دینا چاہتے ہیں قرآن مجید سائنس کی کتاب ہر گز نہیں بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبرؐ پر اس لیے نازل کی تاکہ اس کے ذریعے سے وہ لوگوں کا تزکیہ کر سکیں۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بہت سی نشانیوں کا ذکر کیا ہے اور ان کے بیان میں محض ضمنی طور پر بعض ایسے تاریخی اور علمی حقائق کی طرف اشارہ کیا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں بیان ہوئے تھے۔ سائنس کے حوالے سے جو باتیں برسبیل تذکرہ بیان ہوئی ہیں ‘وہ ایسی ہیں جنہیں جدید سائنسی تحقیق آج دریافت کر رہی ہے اور ایسا صرف اس لیے ہوا کہ ان حقائق کو بیان کرنے والا اس کار خانہ قدرت کا خالق ہے‘ لہٰذا اس طرح کے سائنسی حقائق کے انکشاف سے اس غلط فہمی میں نہیں پڑنا چاہیے کہ قرآن محض سائنسی یا اس طرح علمی انکشافات کرنے کے لیے نازل ہوا تھا۔
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلا م بھی ہے اور اس کے آخری پیغمبرحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سچا ہونے کا ایک زندہ معجزہ بھی۔ قرآنی معجزات کے سلسلے میں اس دفعہ ایک ایسے معجزے کی داستان درج کی جاتی ہے‘ جس کو پڑھ کر ایمان والوں کا ایمان تازہ بھی ہو گا اور مضبوط بھی اور ہر غیر مسلم کے لیے یہ معجزہ ایک مجسم سوال بن جائے گاکہ اس عظیم نشانی کے باوجود بھی قرآن منزل من اللہ نہ ماننے کی آخر کیا وجہ ہے؟
میری بہن اپنے بیٹے کی اس عادت سے پریشان تھی کہ اس کی انٹرنیٹ سے دلچسپی بڑھ گئی ہے لیکن ایک دن اس نے خوشی خوشی مجھے بتایااب اس کی پریشانی دور ہو گئی ہے۔ اس اطمینان کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہنے لگی کہ پچھلی رات ایک بجے سٹڈی روم سے آنے والی آواز نے ہمیں نیند سے بیدار کر دیا تھا۔ میرے شوہر رؤف صاحب جلدی سے اٹھے اور ڈرتے ڈرتے احتیاط سے سٹڈی روم کی طرف چل دیئے۔ سٹڈی روم کا دروازہ کھلا اور کمراروشن تھا۔ انھوں نے دائیں طرف دیکھا تو ایک اور حیرت نے ان کے قدم تھام لیے۔ معاذ کے کمرے کی بتی بھی روشن تھی ۔ وہ پہلے اس کمرے کی طرف بڑھے‘ اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ کمپیوٹر آن ہے لیکن معاذ وہاں موجود نہیں تھا۔ اس چیز نے تو ان کی تشویش میں مزید اضافہ کر دیا۔ وہ اب دوبارہ سٹڈی روم کی طرف بڑھے ۔ دروازے کے قریب آئے تو پھر آواز آئی ۔ وہ دبے قدموں سٹڈی روم میں داخل ہوئے اور پھر انہوں نے اطمینان کا سانس لیا ۔ سٹڈی روم میں معاذ ان سے بے خبر کتاب پڑھنے میں مصروف تھا۔ ’’بھئی یہ کون سا وقت ہے تحقیق کا ؟‘‘ انہوں نے بے زاری سے پوچھا ۔ ابو میری انٹرنیٹ پر ایک دوست سے بات ہو رہی ہے اس نے مجھ سے ایک بات پوچھی تھی جس کے لیے مجھے قرآن مجید دیکھنا پڑ گیا تھا۔ اسی لیے یہاں قرآن مجید اور اس کی تفسیر دیکھ رہا ہوں۔
’’ لیکن وہ آواز؟‘‘
دراصل مجھ سے ایک کتاب گر پڑی تھی اتنی دیر میں بھی وہاں پہنچ گئی ۔ ہم دونوں حیرت سے بیٹے کی طرف دیکھ رہے تھے‘ دراصل ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ انٹرنیٹ پر گفتگو معاذ کو قرآن مجید پڑھنے پر مجبور کر دے گی‘تب ہمارا اس حقیقت پر اعتماد اور بڑھ گیا تھا کہ کوئی ایجاد اصل میں بری نہیں ہوتی ۔ اس کا استعمال ہے جو اچھا یا برا بناتا ہے ۔ کچھ لمحوں کے توقف بعد رؤف صاحب نے پوچھا‘معاذ بیٹا ! قرآن مجید میں کیا چیز دیکھ رہے ہو؟اور کس دوست سے بات ہو رہی تھی؟
دراصل ایک بڑی اچھی سائٹ ہے‘ میں اس سائٹ کو دیکھتا رہتا ہوں۔ اس کے وہ صفحات جس میں غیر مسلموں کے سوالوں کے جواب دیئے جاتے ہیں بڑے دلچسپ اور ایمان افروز ہوتے ہیں۔ اسی صفحے پر ایک غیر مسلم طالب علم رابن کے ساتھ میری گفتگو شروع ہوگئی۔ ظاہر ہے ہم مذہب پر گفتگو کرتے تھے۔ یوں ہماری دوستی ہو گئی لیکن آج اس نے مجھ سے ایک مشکل سوال کر دیا ہے میں بے بس اسی سوال کا جواب تلاش کر رہا تھا۔
مسٹر رابن نے تم سے کون سا سوال پوچھ لیا؟رؤف صاحب کی نیند اب ختم ہو چکی تھی اور وہ بیٹے کی دلچسپیوں میں دلچسپی لے رہے تھے۔
ابو! وہ پوچھ رہا تھا کہ سورہ یونس کی آیت نمبر 92میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ فرعون کی لاش کو محفوظ رکھے گا اور اسے دنیا کے لیے نمونہ بنائے گا۔ مگر یہ لاش کہاں ہے؟قرآن کے دعوے کے مطابق اسے کب اور کہاں نمونہ بنا کر رکھا گیا ہے ؟ اور ابو میں نے سورۃیونس کی وہ آیت دیکھ لی ہے واقعی اس میں اللہ نے یہ فرمایا ہے مگر مجھے تو اس کے بارے میں کچھ علم نہیں۔ میں نے کچھ تفسیر یں بھی دیکھی ہیں اس میں بھی اس کے متعلق کچھ نہیں لکھا۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اب رابن کو کیا جواب دوں گا۔
رؤف صاحب مسکرائے اور بولے ’’بیٹا وہ دیکھو ‘دائیں طرف الماری کی تیسری شیلف سے پانچویں کتاب اٹھاؤ۔
معاذ نے وہ کتاب نکالی ۔ کتاب انگریزی میں تھی۔ اس کا نام تھا۔ ’’قرآن ‘بائبل اینڈ سائنس‘‘رؤف صاحب بولے بیٹے اس کتاب میں تمہیں اس سوال کا بڑا اچھا جواب مل جائے گا اور میرے خیال میں تم آدھ گھنٹے ہی میں اسے جوابی ای میل بھیج دو گے۔ اب تم کتاب پڑھو اور ہم سوتے ہیں اور ہاں بیٹے یہ اتنی رات گئے جاگنا کوئی اچھی عادت نہیں۔ کوشش کرو کہ زیادہ سے زیادہ دس بجے تک جاگو رات دیر تک جاگنے سے فجر کی نماز بھی قضا ہو سکتی ہے !یہ کہہ کر اس کے ابو اپنے کمرے کی طرف چل دیئے۔
صبح اٹھ کر معاذ نے بتایا کہ اس نے بے چینی سے کتاب کی فہرست دیکھی۔ کتاب کے انڈکس میں ’’فرعون موسیٰ کی لاش(فرعون ممی)کے الفاط دیکھے اور متعلقہ صفحات نکال کر انہیں پڑھنے لگا۔ جیسے جیسے وہ پڑھتا گیا ویسے ویسے اس پر حیرتوں اور انکشافات کے نئے دروازے کھلتے چلے گئے۔ اس نے جلدی سے کتاب کے مصنف کا نام پڑھا تو ایک اور حیرت ہوئی ‘مصنف کا نام غیر مسلموں کا سا تھا۔ پندرہ بیس منٹ کے مطالعے کے بعد وہ اپنے کمرے کی طرف دوڑا ۔ ان نے رابن کو ای میل کرنے کے بجائے اس سے انٹرنیٹ پر گفتگو(چیٹنگ) کو مناسب خیال کیا۔ چند لمحو ں کے بعد اس کا رابطہ رابن سے ہو چکا تھا۔
معاذ نے لکھا ’’مسٹر رابن ‘میرے پاس آپ کے لیے بڑی دلچسپ خبریں ہیں‘ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ مشہور ماہر آثار قدیمہ اور یت نے 1896ء میں فرعون کی ممیاں دریافت کی تھیں۔
رابن نے جواب دیا ’’تمہارا مطلب ہے کہ مصر کے ان حکمرانوں کی حنوط شدہ لاشیں جنہیں زمین دوز مقبروں میں رکھا جاتا تھا۔ ‘‘بالکل وہی پھر ایسا ہو ا کہ 1907ء میں مصر کے عجائب گھرمیں رکھی فرعون کی حنوط شدہ لاش کو پھپھوندی لگ گئی۔ عجائب گھر کی انتظامیہ نے اس ممی کا معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس ممی کے اوپر کپڑے کی پٹیاں لپٹی ہوئی ہیں ان پر سمندری نمک موجود ہے!‘‘ یہاں تک لکھ کر معاذ نے رابن کے جواب کا انتظار کیا۔ اس کی توقع کے مطابق فوراً رابن نے جواب میں لکھا ’’یہ کیسے ممکن ہے؟ مصری تو ان لاشوں کو اچھی طرح صاف کر کے اور پھر ان پر خاص قسم کا مسالا لگا کر انہیں محفوظ کرتے تھے تاکہ لاشیں خراب نہ ہوں اور صحیح حالت میں رہیں ! اس طرح لاش میں نمک کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یہی سوال ماہرین کے سامنے تھا۔ انہوں نے اس کا یہ نتیجہ نکالا کہ نمک لاش کے اندر سے کپڑے کی پٹیوں میں آیا ہے اور لاش میں نمک اس لیے تھا کہ جس فرعون کی یہ لاش ہے اس کی موت سمندر میں ڈوبنے سے ہوئی ہے اور اب سمندر میں ڈوب کر ایک ہی فرعون ہلاک ہو ا تھا جس کا نام ہے ’’منفتا‘‘(مرنپتہ)یہ اسی فرعون کا نام ہے جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کیا تھا۔ یوں قرآن مجید کی اس آیت میں کیا گیا دعویٰ سچ ثابت ہو گیا جس کے متعلق تم نے سوال کیا تھا۔
معاذ کی اس بات کا رابن نے کئی لمحوں تک کوئی جواب نہ دیا ۔ ظاہر ہے یہ بہت ہی حیران کن بات تھی۔
معاذ نے بتایا کہ رابن ایک پڑھا لکھا نوجوان تھا اور وہ اس بات سے اچھی طرح واقف تھا کہ فرعون نے حضرت موسیٰ ؑ اور اس کی قوم کا پیچھا کیا تھا۔ حضرت موسیٰ ؑ کے راستے میں سمندر آگیا تو اللہ نے انہیں حکم دیا کہ اپنی لاٹھی سمندر میں ماریں۔ لاٹھی مارنے سے سمندر میں راستہ بن گیا۔ اور حضرت موسیٰ ؑ اور ان کی قوم اس میں گزر گئی۔ فرعون اپنی فوج کے ساتھ ان کے تعاقب میں آیا۔ وہ وہ ابھی راستے ہی میں تھا کہ سمندر اپنی پہلی حالت میں آگیا اور وہ لشکر سمیت سمندر میں غرق ہو گیا۔ اتنی کہانی بائبل میں بھی بیان ہوئی تھی لیکن آگے کے حالات صرف اور صرف قرآن میں بیان ہوئے تھے۔ قرآن میں ہے کہ اس نے مرتے وقت حضرت موسیٰ ؑ پر ایمان لانے کا اعلان کیا تھا لیکن موت کے وقت لایا گیا ایمان اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتے ۔ اس لیے اس کی لاش کو عبرت کے لیے قیامت تک محفوظ رکھنے کا بھی اعلان کیا اور قرآن کا یہ اعلان اس انکشاف سے درست ثابت ہوا۔ یہ بات رابن کے لیے بڑی ہی حیران کن تھی۔
آخر کئی لمحوں کے انتظار کے بعد اس کا جواب آیا’’تم مجھے اس کتاب کا نام بتاؤ جہاں یہ ساری تحقیق بیان ہوئی ہے‘‘۔ معاذ نے کہا’’مسٹر رابن میں تمہیں ضرور بتاؤں گا لیکن پہلے مزید جان لو کہ 1975ء میں فرعون کی لاش کو فرانس سے لے جایا گیا۔ وہاں اس کا مزید مطالعہ کیا گیا اور ماہرین نے یہ رپورٹ دی کہ جس فرعون کی یہ ممی ہے وہ سمندرمیں ڈوب کر ہلاک ہوا تھا۔ یہ بات اس ممی کے جسم میں موجود نمک اور کان کے پردوں میں موجود کیمیکلز سے معلوم ہوئی‘ رہی ثبوت کی بات تو تم ’’مورس باکائے‘‘ کی مشہور کتاب’’بائبل اور سائنس ‘‘ میں یہ ساری تحقیق پڑھ سکتے ہو اور اب تو قاہرہ کے عجائب گھر میں اس لاش کی نمائش جاری ہے۔یعنی قرآن کے وعدے کے مطابق وہ عبرت کا نشان بنی ہوئی ہے۔
رابن نے معاذ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ کتاب پڑھ کر اسے جواب دے گا۔اس کے بعد رابطہ کٹ گیا۔
صرف دو دن بعد رابن نے انٹرنیٹ کے ذریعے معاذ سے خود رابطہ کیا۔ اس نے لکھا’’پیارے دوست تمہاری بات درست ثابت ہوئی میں نے نہ صرف مورس بکا ئے کی کتاب کے متعلقہ حصوں کا مطالعہ کیا ہے بلکہ انٹرنیٹ پر اس موضوع پر بہت ساری سائٹس بھی دیکھی ہیں۔ ان سے تمہاری دی ہوئی تمام معلومات کی تصدیق ہو گئی چنانچہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ قرآن واقعی اللہ کا کلام ہے اور محمدؐواقعی اللہ کے سچے نبی ہیں۔
معاذ کی والدہ کی یہ کہانی سننے کے بعد میرے ذہن میں ایک اور سوال آیا۔ وہ یہ کہ مصر میں فرعون کی ممیوں کی دریافت تو اٹھارہویں صدی عیسوی کا واقعہ ہے اس سے پہلے تو کسی کو معلوم ہی نہ تھا کہ فرعون کی ممیاں یوں عجائب گھروں میں دیکھنے کے لیے دستیاب ہوں گی۔ ان حالات میں قرآن مجید کے مفسرین اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کے متعلق کیا کہتے تھے؟اس سوال کا جواب پانے کے لیے میں نے مختلف تفاسیر دیکھنا شروع کیں تو بڑی حیرت ہوئی ۔ مثلاً ابن کثیر اپنی تفسیر میں سورۃ یونس کی مذکورہ آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں۔
’’اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اب ہم تیری روح ہی کو نہیں تیرے جسم کو محفوظ کرتے ہیں تا کہ بعد والوں کے لیے وہ عبرت بن جائے۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی قوم نے فرعون کی موت کے بار ے میں شک کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے دریاکو حکم دیا کہ فرعون کے جسد کو جس پر لباس بھی موجود ہے خشکی پر پھینک دے تا کہ لوگوں کو فرعون کی موت کا حقیقی ثبوت مل جائے۔ تفسیر ابن کثیر(اردو)جلد دوم
ایک جدید مفسر اس آیت کا حاشیے میں لکھتے ہیں۔
’’قدرت کے انتقام کی ایک نشانی یہ ظاہر ہوئی کہ فرعون کی لاش کو نشان عبرت بنانے کے لیے سمندر نے ساحل پر پھینک دیا۔ مصر میں لاشوں کو ممی کر کے محفوظ کرنے کا رواج تھا چنانچہ اس لاش کو بھی محفوظ کر لیا گیا تا کہ ہر زمانے کے فرعون اس زمانے کے فرعون سے عبرت پکڑیں۔
اس مطالعے سے ثابت ہوتا ہے کہ مفسرین قرآن مجید کے اس دعوے کا یہی مطلب سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ فرعون کی لاش کو بعد کے لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بنائے گا لیکن قرآن مجید کا یہ دعویٰ اس شان سے پورا ہو گا۔ بھلا کس کو معلوم تھا!

Tuesday, August 30, 2016

SURAJ KA PANI ME DUBNA AUR HAZRAT ZULQARNAIN A.S

اعتراض : سورۃ کہف کی آیت 86 

حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ مَغۡرِبَ الشَّمۡسِ وَجَدَہَا تَغۡرُبُ فِیۡ عَیۡنٍ حَمِئَۃٍ

یہاں تک کہ جب وہ غروب آفتاب کے موقع پر پہنچے تو اسے ایک سیاہ چشمہ میں ڈوبتا ہوا محسوس کیا.( ترجمہ مولانا عبدالماجد دریابادی )
سورج کے گدلے پانی میں ڈوب جانا یقیناً غیر سائنسی بات ہے۔

تبصرہ :
یہاں عربی لفظ " وَجَدَ " استعمال ہوا ہے۔ جس کامطلب ہے نظر آنا۔ سو اللہ سبحانہ و تعالی یہاں فرما رہے ہیں کہ ذوالقرنین کو ایسا نظر آیا۔ اس آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ: "یہ (سورج) پانی میں ڈوب رہا ہے"۔ بلکہ بتایا گیا ہے کہ حضرت ذوالقرنین کو ایسا لگا۔
اگر میں کہوں کہ دوسری جماعت کے ایک بچے نے کہا کہ دو اور دو پانچ ہوتے ہیں تو کیا آپ کہیں گے کہ " یہ کہتا ہے کہ دو اور دو پانچ ہوتے ہیں " یہ میں نہیں کہ رہا بلکہ اپ کو بتا رہا ہوں کہ بچہ کیا کہ رہا ہے۔ میں غلط نہیں کہ رہا بلکہ وہ بچہ غلط کہ رہا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ کوئی پر اعتراض کرے اور کہے کہ ہم باتیں فرض کررہے ہیں اور ہمیں الفاظ کو ان کے ظاہر معانی میں ہی قبول کرنا چاہیئے۔ چلیے اس نہج پر تجزیئے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ جب ہم روز مرہ گفتگو میں سورج کے نکلنے اور غروب ہونے کا ذکر کرتے ہیں تو کیا ہم واقعی سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کا ذکر کررہے ہوتے ہیں؟ اخبارات میں ہم سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کے اوقات دیکھتے ہیں تو کیا اخبارات واقعی سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کا ذکر کررہے ہوتے ہیں؟ سائنسی طور پر ہم سب جانتے ہیں کہ سورج نہ تو نکلتا ہے اور نہ ڈوبتا ہے، دراصل یہ زمین کی گردش ہوتی ہے جس کے سبب ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے۔ تو کیا یہ اخبارات غلط بیانی کررہے ہوتے ہیں؟

جب میں لفظ 
Disaster استعمال کرتا ہوں تو میری مراد ایک بڑا حادثہ ہوتی ہے۔ یہ لفظ انہی معانی میں استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے لغوی معانی " ایک منحوس ستارے " کے ہوتے ہیں تو کیا جب یہ لفظ استعمال کیا جائے تو ہمیں اس کے لغوی معانی ہی مراد لینے چاہئیں؟
لیکن بات یہ ہے کہ زبان کا ارتقا اسی طرح ہوا ہے۔ سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کو بھی اسی طرح دیکھنا اور سمجھنا چاہیئے اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سورۃ کہف کی اس آیت میں سورج کے ڈوبنے سے کیا مراد ہے؟ یہاں کوئی بات سائنس کے خلاف نہیں ہے۔
قدیم تفاسیر کا بیان:
امام البیضاوی کے مطابق، وہ شخص جس نے یہ منظر دیکھا شاید سمندر کے کنارے پر پہنچا اور کیوں کہ اسکی حدِ نگاہ تک صرف پانی تھا اور اسی وجہ سے اس نے کہا کہ "اس نے اسے (سورج کو) ڈوبتا ہوا پایا" نہ کہ "یہ (سورج) ڈوبا"
(البیضاوی، انوار التنزیل و اسراد التاویل جلد 3 صفحہ 394 شائع کردہ دار الاشرف، قاہرہ، مصر)۔
امام فخر الدین الرازی کہتے ہیں کہ: ذوالقرنین علیہ السلام جب مغرب کی طرف اتنا دور پہنچے کہ کوئی آبادی باقی نہ رہی تو انھوں نے سورج کو ایک تاریک چشمے میں ڈوبتا ہوا پایا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ سورج واقعی ہی اس چشمے میں ڈوب گیا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے سمندر میں سفر کرنے والے زمین نہ دیکھ پا رہے ہوں اور بوقت غروب سورج پانی میں ڈوبتا ہوا محسوس ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں سورج سمندر سے بہت دور اسکے پیچھے غروب ہوتا ہے۔(الرازی التفسیر الکبیر جلد 21 صفحہ 166
امام ابنِ کثیر کہتے ہیں کہ ، "جب وہ سورج غروب ہونے کی جگہ پہنچ گیا" مطلب کہ انھوں نے ایک خاص راستہ اختیار کیا اور مغرب کی طرف ایسی جگہ پہنچے جہاں زمین کا اختتام ہو گیا(اور سمندر کا آغاز ہوا)"۔جہاں تک آسمان میں سورج کے غروب ہونے کی جگہ تک پہنچنے کا تعلق ہے ایسا ناممکن ہے۔جہاں تک واقعات بتانے والوں اور قصہ خواہوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ زمین میں ایک خاص وقت کے لیے چلتے رہے جس کے بعد سورج انکے پیچھے غروب ہوتا تھا ، ایک غیر حقیقی بات ہے اور اس میں زیادہ تر اہلِ کتاب کی داستان سرائی اور کاذبوں کی اختراعات ہیں۔"اس نے دھندھلے پانی کے ایک چشمے میں اسے (سورج کو) ڈوبتے دیکھا" کا مطلب ہے کہ اس نے اپنی بصارت کے مطابق سورج کو سمندر میں غروب ہوتے دیکھا اور ایسا ہر اس شخص کو نظر آتا ہے جو ساحل ِ سمندر پر ہو،کہ جیسے سورج پانی(سمندر) میں اُتر رہا ہو۔ (ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، جلد 5، صفحہ 120، شائع کردہ مکتبات الایمان، منصورہ، مصر)۔
مجھے یقین ہے کہ یہ جواب مشنریوں اور ملحدین کی طرف سے کی جانے والی من گھڑت تشریح کورد کرنے کے لیے کافی ہے۔ اور اللہ ہی تمام معاملات میں انصاف کرنے والا ہے۔
تحریر ہشام عزمی



DEBATE : SPERM KAHA PAEDA HOTA HAI ? (URDU)


فَلۡیَنۡظُرِ الۡاِنۡسَانُ مِمَّ خُلِقَ ﴿۵﴾خُلِقَ مِنۡ مَّآءٍ دَافِقٍ ۙ﴿۶﴾یَّخۡرُجُ مِنۡۢ بَیۡنِ الصُّلۡبِ وَ التَّرَآئِبِ﴿۷

پھر انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیاگیا۔ ایک اُچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کی درمیان سے نکلتا ہے ______!
وہ کہتے سوال گندم جواب چنا __
اس میں لفظ آ رہا ہے
یخرج __ خارج ہو نا ، نکلنا ...
اور اک جناب صاحب نے نیچے اسکی توجہیح دی کہ کیا مردانہ نطفہ کمر اور سینے کی ہڈی کے بیچ پیدا ہوتا ہے ___؟
لیکن انکا یہی آنناً فانناً استدلال بھی ملحوظ ِ خاطر ہے کہ
سب سےپہل تو یہ نطفہ ریڑھ کی ہڈی ہی کے ریفلیکس سے خارج ہوتا ہے ....
اسکا سائینس خود اپنی بات رقم.کرتے ہوئے کہتی ہے اگر آپ کیہیں کہ یہ پیدا کیسے اور کہاں ہوتا ہے __ وہ جو سمجھتے سپرم ٹیسٹس کی بالز میںنپیدا ہوتا ہے ..جبکہ سائینس اب کیا کہتی ہے سنیے
جُنینی مراحل یعنی اسے انگریزی میں 
embryonic stages کہتے میں مردانہ وزنانہ تولیدی اعضاء یعنی فوطے testicle اور Ovary گردوں کے پاس سے ریڑھ کی ہڈی اور گیارہوں اور بارہویں پسلیوں کے درمیان سے نموپذیر ہونا شروع کرتے ہیں۔ بعدازاں وہ کچھ نیچھے اُترآتے ہیں ، زنانہ تولیدی غدود جسے gonads یعنی بیضہ دانیاں پیڑو pelvis میں رُک جاتی ہے جبکہ مردانہ اعضائے تولیدinguinal canal کے راستے خص دانی scrotum تک جاپہنچتے ہیں۔ حتٰی کہ بلوغت میں بھی جبکہ تولیدی غدود کے نیچے جانے کا عمل رک چکا ہوتا ہے ان غدود میں دھڑوالی بڑی رگ Abdominal aorta کے ذریعے خون اور اعصاب کی رسانی کا سلسلہ جاری رہتاہے۔ دھیان رہے کہ دھڑ والی بڑی رگ اس علاقے میں ہوتی ہے جو ریڑھ کی ہڈی اور پسلیوں کے درمیان ہوتا ہے ۔ لمفی نکاس (Lymphatic drainage اور خون کا وریدی بہائو بھی اس سمت ہوتاہے______!!یعنی یہی بیچ سے اچھلتا ہوا پانی آتا ہے
یہ جو اوپر میں ساینسی استدلال میں نے رکھا اسے ہوبہو کسی بھی جینات کی کتاب سے نکال کے پڑھا جا سکتا ہے نہ کہ یہ کسی مومن کی اپنی سائینسی توجہیع ہے ____ اسکے مصداق اگر اسے میں زرہ تھوڑا اور آسان کر دو‍ تو اسکا مطلب یوں ____!!
ابتدائ مراحل میں سپرم اور ایگ گردوں کو ملانے والی ٹیوب کے ساتھ پسلیوں (جوکہ سینے اور ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ جڑا ہوا چھجا ہے) کے ہڈیوں کے بیچوں بیچ اپنا وجود پیدا کرنا شروع کرتے ٹیس ٹیز میں جب لیکوڈ پہنچتا ہے تو وہ اسی ٹیوب کے راستے سکارٹم کے دو گول دائروں میں آتا ہے .. جہاں وہ ڈویزن کے مراحل سے گزرتا ہے _____!!
اب اسکو زرہ میں نکات میں الگ الگ کوڈ کر کے سامنے رکھتا ہوں آپکے _
95
to 98% accurate! Only 2-5% of the semen is contributed by the testicles. The rest is produced in the glands located in the pelvic cavity.
یعنی دو سے پانچ فیصد سیمن ٹیسٹیکل بالز کی اشتراکیت سے بنتا ہے __ پچانوے سے لے کے اٹھانوے فیصد پلیوس کیویٹی کے ساتھ میں لگے گلینڈز میں __ اور پیلوس کیویٹی ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ متصل ہے جو اسے وہاں گلینڈز کی مدد سے اوپر ہی پیدا کر دیتا ہے
During coitus semen is ejaculated from the two storage areas called the seminal vesicles, and NOT FROM THE TESTICLES.
یعنی سیمنی ویزیکلز وہ ویزکلز ہیں جو ہڈی سےجُڑی ہیں ___ یعنی خروج کے لمحوں میں سیمن باہر آتا ہے پہلے ویزیکل ٹیوب جو اوپر ہڈی کے ساتھ جڑی ہے نہ کہ ٹیسٹیکل سے ___
اگلے لمحہ __!
اب قرآن کہتا ہے کہ ہڈیوں کے بیچ سے آتا ہے ..اچھل کر
اسکی سائینس یوں تو جیح پیش کرتی ہے.
The
Expulsion is a spinal cord reflex that is mediated by somatic motor components of the peri Neal branch of the pudendal nerve that originate from nerve roots S2–S4 as well as by concurrent relaxation of external urethral sphincter and urogenital
We can see from the statement above that the expulsion is a spinal cord reflex. Without the involvement of the spinal cord it would be less likely for the process to occur.
In men with spinal cord injury, the ability to ejaculate is less common than the ability to obtain an erection. The rate of ejaculation varies depending on the nature and location of the neurological injury. In complete upper motor neuron lesions, the ejaculation rate is estimated at 2 percent. In incomplete upper motor neuron lesions, the ejaculation rate is estimated to be somewhat higher at approximately 32%. Many men who are able to ejaculate experience retrograde ejaculation into the bladder, some may experience dribbling of semen.
Apparently people who have spinal cord injuries have extreme difficulties in ejaculating and in case they do many experience a back flow of semen into the bladder or mere dribbling of semen. This does show that an injury to the spinal cord does have a profound effect to the ejaculation process
یعنی سیمن کا نزول ہونا ..
ریڑھ کی اور سینے کی ہڈی کے ریفلیکس یعنی جھٹکنے سے پیش آتا ہے ___بیچوں بیچ سے اسکے بغیر یہ ممکن نہیں جنکی بیک بون میں انجری ہے نروز انجرڈ ہیں وہ اچھلتا ہوا نطفہ یخرج کرنے کے عمل سے قاصر ہیں ___!
اس آیت فری تھنکر گروپ میں دی گئ اس میں دو لفظ استعمال ہوئے ہیں
ایک ____!
صلب ___! ریڑھ کی ہڈی جسے انگش میں 
Lions کہا جاتا ہے ___!
دوسرا ___!
الترب ___!(پسلیاں )
قابل غور لفظ ہے ریڑھ کی مین ہڈی لوائن
میڈیکل ساٰئنس اسے اپنے لفظوں میں بیان کرتے ہوئے کہتی ہے
the word loins refers to:
The region of the hips, groin, and lower abdomen.
b. The reproductive organs.
یعنی جب لوائن ریڑھ کی ہڈی کا ذ کر آتا ہے تو اسکی ٹیل پہ مراد ہپ لوئر ریجن اور تولید شامل ہو جاتے ہیں ......الگ تھلگ ہرگز نہیں
So
Sperm is produced in the testes and is then transfered to the seminal vesicles awaiting ejaculation, the=is accounts for 5 % of the ejaculate, the rest of the ejaculate comes from the seminal vesicles 80%,with the وprostate gland and the bulbourethral and urethral glands producing the rest of the ejaculate . At the time of ejaculation, all this (semen, which contains the sperm) is released
یعنی سیمن مطلب سپرم کی پانچ فیصد جمع خروج مردانہ بالز جسے ٹیسٹیز کہتے ہیں وہاں سے ہوتی ہے باقی اسی فیصد جمع خروج سیمینل ویزیکل جو ٹیوب کے زریعے ریٹھ کی ہڈ ی کی ٹیل کے ناطے سے جڑی ہے سو وہیں سے خروج کا عمل شروع ہوتا ہے___!
The seminal vesicles are anterior to the sacrum and coccyx (lower back, loin) and the ribs are anterior to the seminal vesicles
If one was to draw a line from the tip of the coccyx, to the upper portion of the seminal vesicle _ either one of the two_ and extend the line forward it will catch the ribcage.The seminal vesicles from which the semen spurts out during coitus, lies between the ribs and the coccyx (backbone)!
پس ثابت ہوا کہ
نطفہ ریڑھ کی ہڈی سے جڑے ویزیکلز سے ہی یخرج کاعمل طئے کرتا ہوا ٹیوب کے راستے باہر آتا ہے ________!
اب غالب کمال جیسے بندوں سے ملحد سائینس سیکھیں گے تو واقعی میں کمال ہو گا ..
غالب کمال صاحب نے کہا سپرم ناکارہ ہو جاتے ہیں اگر درجہ حرارت 37 ڈگری سےدو ڈگری سے کم درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی سپرم کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے سو ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ وہ زندہ نہیں رہ سکتے
لیجئے کمال صاحب سائینس کی اپنی زبان میں
the temperature dependence of overall rotational diffusion and local backbone motion...
بیک بون کا نارمل ٹیمپریچر چوتیس ڈگری ہوتا ہے کسی معالج سے بھلے اپنی بیک بون کا ٹمریچر ماپ کر تسلی کر لیں یا بُک میں کوریئر کر دوں گا اس متعلق ___ کجا یہاں بیک بون ٹیل پہ آکے مزید درجہ حرات نارمل ہو جاتا ہے
سو سپرم کو خطرہ نہیں جناب کی عقل کو ہے __
جو کچھ نہیں کرتے وہ کمال کرتے ہیں !
تحریر مہران درگ



Monday, August 29, 2016

KYA SCIENCE ISLAM KE KHILAF HAI >?

سائنس اور اسلام
تحریر : محمّد سلیم

لوگ عموماً سمجھتے ہیں کہ اسلام سائنس کے خلاف ہے ۔ مگر جب میں سائنسی نظریات پہ نظر ڈالتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ اسلام سائنس کے خلاف نہیں بلکہ 
سائنس اسلام کے خلاف ہے ۔

سائنس سے میری مراد یہاں ایسے غیر مسلم سائنس دان ہیں جو اسلام سے شدید نفرت کرتے ہیں ۔ اسلام کو نیچا دکھانے کے لئے انہبں اگر کسی غیر سائنسی رویے کو اپنانا پڑے تو وہ اس سے بھی نہیں چوکتے ۔ اس مضمون میں میں جہاں سائنس کا لفظ استعمال کروں گا اس سے مراد سائنس دان ہی ہوں گے ۔
سائنس کو اگر مریخ پہ پانی کے آثار مل جائیں تو وہاں زندگی کی تلاش شروع ہو جاتی ہے ۔ کیوں کہ جہاں پانی ہو وہاں زندگی کا ہونا غبر یقینی نہبں ۔ بغیر یقینی آنکھ سے دیکھے محض شواہد کی بنیاد پر زندگی کا تصور کر لیا جاتا ہے ۔

مگر انہی اصولوں پر خدا کی تلاش یا تصور سائنس کے لئے محال ہے ۔ ایسے میں سائنس کی ایک اور پالیسی سامنے آتی ہے کہ جو چیز جب تک سائنس کے مشاہدے میں نہ آجائے اس وقت تک سائنس اس چیز کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی ۔ سائنس کے مطابق خدا کی تخلیقات خدا کے وجود کا ثبوت نہیں ۔ جب تک خدا خود زمین پہ آکر اپنا دیدار نہ کروا دے مگر انہی سائنس دانوں کو اگر پچاس لاکھ سال پرانا کوئی دانت مٹی میں دبا مل جائے تو اس پہ پورا ہوموسیپیئن یا نانڈراتھیال کھڑا کر لیتے ہیں ۔ مشاہدوں پر مخلوقات کا تصور سائنس کے لئے عمومی بات ہے مگر انہی مشاہدوں پر خدا کا تصور سائنس کے لئے ناممکنات میں سے ہے ۔
جو چیز سائنس کے مشاہدے میں نہ آسکے وہ چیز اپنا کوئی وجود نہیں رکھتی ۔ جادو ۔ معجزے اور جنات انہی چیزوں میں شامل ہیں ۔ اسی اصول پر اگر ہم نیوٹن کے لاء آف گریویٹی کو پرکھیں تو اندازہ ہو گا کہ گریویٹی نیوٹن کی دریافت نہیں بلکہ ایجاد تھی ۔ کیوں کہ نیوٹن کے لاء آف گریویٹی کو متعارف کروانے سے ایک دن پہلے لاء آف گریویٹی کا سائنس کے پاس کوئی مشاہدہ نہ تھا ۔ اور جس چیز کا سائنس کے پاس کوئی مشاہدہ نہ ہو اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا ۔ جس طرح خدا کا سائنس کی نظر میں کوئی وجود نہیں ۔ اور جو چیز وجود ہی نہ رکھتی ہو اسے وجود بخشنے والا اس کا خالق اور موجد کہلاتا ہے نا کہ دریافت کنندہ ۔ یعنی سائنس کے اسی اصول پر نیوٹن لاء آف گریویٹی کا خالق اور موجد تھا ۔

اگر ہم اس اصول کو تمام سائنسی دریافتوں پر اپلائی کر دیں تو وہ سب ایجادات میں تبدیل ہو جائیں گی ۔ تاوقتیکہ سائنس اس معاملے میں اپنی اصلاح کا اعلان نہ کرے ۔
بہتر رویہ یہ ہوتا کہ سائنس کچھ معاملات میں اپنی کم فہمی کا ادراک کرلے کہ جس چیز کا مشاہدہ سائنس کے پاس نہ ہو اس کا وجود تو ممکن ہے مگر سائنس ابھی اس معیار پر نہیں پہنچی کہ اس پر گواہی دے سکے ۔ مگر یہ رویہ سائنس کو خدا کا تصور بھی دے دے گا جو سائنس کے لئے لمحۂ فکریہ ہے ۔

پھولوں میں رنگ کون بھرتا ہے ؟ سائنس کو نہیں پتہ مگر خدا کے سوا کسی نے بھی بھر دئے ہوں گے ۔

پھولوں سے خوشبو کیوں آتی ہے ؟ سائنس نہیں جانتی مگر اس میں خدا کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا ۔
پھلوں کے ذائقے ۔ انسان کی تخلیق ۔ انسان کا اندرونی جسمانی نظام ۔ یہ سب باتیں کوئی نہ کوئی سائنسی وجہ رکھتی ہوں گی ۔ مگر خدا نہیں ہو سکتا ۔
لاکھوں سال لگتے ہیں ایک بندر کو ارتقا کے مراحل سے گزر کر انسان بننے میں مگر ایک ناپاک قطرہ ماں کے پیٹ میں محض نو مہینے میں انسانی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ پتہ نہیں اس قطرے میں سے انسانی اعضا برامد ہو جاتے ہیں یا ماں کے پیٹ میں پہلے سے دگنے انسانی اعضا موجرد ہوتے ہوں گے جن میں سے آدھے وہ اپنے بچے کو عنایت کر دیتی ہے ۔ چار مہینے میں وہ مردہ قطرہ زندگی کی نمو پا کر حرکت میں آجاتا ہے اور انسان الٹراساؤنڈ مشینوں کی مدد سے محض اس کی حرکات دیکھ کر اپنی ذہانت پہ دل ہی دل میں خوش ہوتا رہتا ہے کہ دیکھو میں کتنا ترقی یافتہ ہوں کہ میں ماں کے پیٹ میں بچے کو حرکت کرتے دیکھ سکتا ہوں ۔ بچہ کیسے پیدا ہوتا ہے اس معاملے میں سائنس کے پاس بھی اتنا ہی علم ہے جتنا میری گلی میں گٹر صاف کرنے کے لئے آنے والے جمعدار کے پاس ۔ مگر بچہ کیوں پیدا ہوتا ہے ۔ اس معاملے میں جمعدار اور سائنس کی جہالت میں کوئی واضح فرق نہیں ۔

ﷲ تعالیٰ قرآن میں سات آسمانوں کا ذکر کرتا ہے ۔ سائنس کو آج تک ایک بھی نہیں ملا لہٰذا آسمان موجود ہی نہیں ۔ انسان کی رسائی چاند اور مریخ سے آگے نہ جا سکی ۔ مگر جس آسمانِ دنیا پر ستارے ٹانکے گئے ہیں وہی ستارے جو سورج سے بھی لاکھوں نوری سال کی مسافت پہ ہیں ۔ اس آسمانِ دنیا کا کوئی وجود نہیں ۔ یہ ستارے اگر ٹمٹما نہ رہے ہوتے تو سائنس ان کا بھی انکار کر ڈالتی ۔ پھر اگر کسی سائنس دان کو اگر دوربین سے کوئی ستارہ دکھ جاتا تو وہ اس کا دریافت کنندہ نہیں بلکہ خالق بن بیٹھتا ۔ کیوں کے سائنس ہی کے مطابق ایک دن پہلے تک اس کا کوئی وجود ہی نہ تھا تو جس نے ڈھونڈ لیا وہ اسی کا ۔

سائنس کے مطابق انسان لاکھوں سالوں سے اس دنیا میں مقیم ہے مگر آج تک نہیں جانتا کہ سمندر میں مچھلیوں کی کتنی قسمیں بستی ہیں ۔ روز نت نئی مچھلیاں ایجاد ہو رہی ہیں ۔ مگر سوری ۔ یہاں ایجاد کا لفظ نہیں آئے گا ۔ کیوں کہ یہاں سائنس کی تھیوری بدل جاتی ہے ۔ سائنس اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ زمین پر لاکھوں سال جوتیاں چٹخانے کے باوجود ہمیں زمین پر موجود تمام مخلوقات کا علم نہیں ۔ مگر کائنات جس میں ہم چاند اور مریخ سے آگے کبھی نہ گئے اس کے بارے میں ہمیں پکا پتہ ہے کہ وہاں آسمان نہیں ہو گا ۔ ﷲ ستارے شیاطین کے پیچھے کیسے چھوڑ سکتا ہے یہ تو ممکن ہی نہیں ۔

کسی سیارے پہ سائنس کو انسانی فضلے کے شواہد مل جائیں تو پوری زمین کے سائنس دان اپنی ساری مشینری اس انسان کو ڈھونڈنے میں استعمال کر ڈالیں گے ۔ کسی کے ذہن میں کبھی بھولے سے بھی خیال نہ آئے گا کہ انسانی فضلہ وہاں خودبخود بھی تو بن سکتا ہے ۔ ممکن ہے مادہ اور ضد مادہ آپس میں ٹکرا کر ختم ہو گئے ہوں اور فضلے کی داستان چھوڑ گئے ہوں ۔ کسی بگ بینگ کے نتیجے تخلیق پا گیا ہو ۔ جی نہیں ایسا کیسے ممکن ہے ۔ سائنس اس بات کو نہیں مانتی ۔ خودبخود تو صرف کائنات وجود میں آ سکتی ہے ۔ چاند سورج ستارے وجود۔میں آسکتے ہیں ۔ زمین وجود۔میں آسکتی ہے ۔ انسان وجود میں آسکتا ہے ۔ مگر انسانی فضلے جیسی عظیم ترین چیز خودبخود کیسے وجود۔میں آسکتی ہے ؟

لاکھوں سال پرانے غاروں میں سائنس انسانی ہاتھوں کے بنے نقش و نگار کا پتہ لگاتی ہے اور اس پہ کچھ معترضین تصویریں دکھا دکھا کر ہمیں یقین دلاتے پھرتے ہیں کہ دیکھو انسان بھی موجود اور خود ساختہ مذاہب بھی موجود ۔ یہ تو بہت بڑا ثبوت ہے ۔ ظاہر ہے انسان تھا تو نقش و نگار بنائے نا ۔ کسی بگ بینگ تھیوری کے نتیجے میں نقش و نگار تھوڑی بن سکتے ہیں ۔ صرف کائنات بن سکتی ہے ۔

Sunday, August 28, 2016

AITRAAZ : KYA IDDAT KA MAQSAD HAMAL KA PATA LAGANA HAI ?


عدّت اور حمل کا پتہ لگانا 


فری فرام تھنکنگ۔
کہتے ہیں جاہلوں کے سر پر سینگ نہیں ہوتے۔ یہی حال فری فرام تھنکرز والوں کا ہے کہ نہ سائنس کا پتا نہ مزہب کا اور اعتراض ایسے کرتے ہیں جیسے کوئ ارسطو اور آین سٹائن کا بلینڈڈ فائنل ورژن ہیں۔ خیر ثاقب افضال صاحب نے اعتراض یہ کیا ہے کہ "آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر مقصد یہ جاننا ہو کہ عورت حاملہ ہے کہ نہیں اور یہ بات جدید سائنسی طریقوں سے پتا چک سکتی ہے تو عورت کو عدت کے نام پر ایک جگہ پر قید کیوں کیا جاتا ہے۔ آگے اس بات پر تمسخر اڈاتے ہوۓ کہتے ہیں "تاکہ لوگوں کو صحيح اسلام اور قرآنی سائنس کے بارے میں مکمل آگاہی ہو۔

جواب۔ 

قارئین یہ سوال ایک منطقی مغالطے پر مشتمل ہے جسے "سٹرامین آرگیومنٹ" کہا جاتا ہے۔ اس میں پہلے ایک شخص پر خود ساختہ بات منصوب کی جاتی ہے پھر اس بات کو جھٹلا کر خود کو سچا ثابت کیا جاتا ہے۔ اس میں یہ کیا گیا ہے کہ پہلے یہ خود فیصلہ کیا گیا کہ عدت کا مقصد حمل کا پتا لگانا ہی ہے پھر جدید سائنس پر اس کو رد کیا گیا جبکہ ہمارا تو یہ دعوہ ہی نہیں تھا کہ عدت کا یہی مقصد ہے۔
وفات یا طلاق کی عدت کا مقصد صرف حمل ہونے، نہ ہونے کی تصدیق نہیں ہے؛ کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو حیض والی عورتوں میں صرف ایک حیض عدت ہوتی، مکمل تین حیض یا چار مہینہ دس دن ہوتی؛ کیوں کہ ایک بار حیض آنے سے حمل نہ ہونا متعین ہوجاتا ہے، نیز قرآن کریم کی کسی آیت میں یا کسی حدیث میں یہ بات نہیں آئی کہ عدت محض حمل کی تصدیق کے لیے ہوتی ہے، یہ محض عوام کی من گھڑت بات ہے، حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حجة اللہ البالغہ میں عدت کی مختلف حکمتیں ومصلحتیں ذکر فرمائی ہیں، نیز شوہر کے انتقال پر حمل نہ ہونے کی صورت میں چار مہینہ دس دن عدت ہونا قرآن کریم سے صراحتاً ثابت ہے (سورہ بقرہ، آیت: ۲۳۴) ، اور ہم سب اللہ رب العزت کے بندے ہیں اورقرآن کریم کے منصوص احکام میں محض اپنی عقل سے رائے زنی شان بندگی کے قطعاً خلاف ہے۔ اور اسلام نے تو عدت وفات چار مہینہ دس دن ہی رکھی ہے، جب کہ زمانہ جاہلیت میں مکمل ایک سال عدت وفات ہوا کرتی تھی، بخاری ومسلم کی روایت میں ہے: حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ ایک عورت حضرت نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس آئی اور عر ض کیا: یا رسول اللہ! میری بیٹی کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے (یعنی: وہ عدت وفات میں ہے) اور اس کی آنکھ میں تکلیف ہے تو کیا ہم اسے سرمہ لگاسکتے ہیں؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، دو مرتبہ یا تین مرتبہ، آپ نے ہر مرتبہ یہی فرمایا کہ نہیں۔ پھر فرمایا: یہ تو صرف چار مہینہ دس دن ہے، جب کہ زمانہ جاہلیت میں عورت ایک سال مکمل ہونے پر عدت سے نکلنے کے لیے مینگنی پھینکتی تھی (مشکوة شریف 
ص
۲۸۸، بحوالہ: صحیحین)۔
۲۔ اس کے علاوہ جو عورت خود سے خلع لے اس کے لیے عدت صرف ایک حيض ہے۔ یہ بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ثابت بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ کی بیوی نے اپنے خاوند سے خلع کیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا ۔ 
سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1185 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2229 ) 
اسحاق بن راھویہ اورامام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کی ایک روایت میں جسے شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی نےبھی اختیار کیا ہے کا بھی یہی مسلک ہے ۔ 
ان کا کہنا ہے کہ : اس کی تائید قواعد شرعیہ کا مقتضی ہے کہ تین حیض عدت تواس لیے رکھی گئي ہے کہ رجوع کرنے کی مدت لمبی ہوسکے اورخاوند کواس مدت کے اندرغور وفکر کرنے کا موقع ملے اورعدت کے اندر رجوع کرنا ممکن ہوسکے
۳۔ اللہ سبحانہ و تعالی کی عورتوں پر عدت کے مشروع کرنے میں بہت سی حکمتیں ہیں، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ان کو اپنی کتاب (إعلام الموقعين) میں ذکر کیا ہے، اور یہ ان کی عبارت ہے: پہلی صورت: عدت کی مشروعیت میں کئی حکمتیں ہیں، جن میں سے بعض یہ ہیں: رحم کے خالی ہونے کا علم، تاکہ ایک ہی رحم میں دو شخص کا نطفہ جمع نہ ہونے پائے، کہ نسب میں گڈ مڈ ہوجائے اور فساد پیدا ہوجائے، اور اس میں کئی طرح کا فساد ہے جس سے شریعت اور حکمت منع کرتی ہے۔ 
اور ان حکمتوں ميں سے ایک: اس نکاح کی عظمت کا اظہار بھی ہے، جس سے اس کی قدر و قیمت بلند ہوتی ہے، اور اس کی شان وشوکت کا اظہار ہوتا ہے، اور ان ميں سے ایک: طلاق دینے والے کو رجوع کے لئے طویل وقت دینا بھی مطلوب ہوتا ہے، کہ شاید وہ اپنے کئے پر نادم ہو اور رجوع کے لئے سوچ و بچار کر سکے، اور ان ميں سے ایک: خاوند کے حق کو پورا کرنا ہے، اور زیب و زینت سے منع کرتے ہوئے خاوند کے فقدان کے اثر کا اظہار کرنا ہے، اسی لئے والد اور بیٹے سے زیادہ خاوند پر سوگ منانا مشروع کیا گیا ہے، اور ان ميں سے ایک یہ ہے: کہ اس میں خاوند کے حق کے لئے احتیاط اور بیوی اور بیٹے کے حق کی مصلحت ہے، اور اللہ تعالی کے حق کو قائم کرنا جو اس نے واجب کیا ہے، چنانچہ عدت میں چار حقوق ہیں، اور شارع نے موت کو عقد پورا کرنے کے قائم مقام رکھا ہے، کیونکہ نکاح کی مدت تمام عمر ہے، اس لئے اس کو مہر کی تکمیل میں دخول کے قائم مقام رکھا گیا ہے، نیز صحابہ وغیرہ کی ایک جماعت کے نزدیک گود لی گئی بیٹی کی حرمت ثابت ہونے میں اس کا دخل ہے، جیساکہ زید بن ثابت اور ایک روایت میں امام احمد کا مذھب بھی یہ ہے، اور عدت سے مقصود صرف رحم کے خالی ہونے کی تصدیق نہیں 
ہے، بلکہ اس کے بعض دیگر مقاصد اور حکمتیں بھی ہیں۔ وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔


ملحد کا اعتراض 

21.ULTRA SONOGRAPHY AUR QURAN

اعتراضات کے جوابات۔ اعتراض 
21

کیا الڑا سونو گرافی قرآنی آیات کی نفی کرتی ہے؟



" قرآن کریم کہتا ہے کہ کسی ماں کے رحم میں موجود بچے کی جنس صرف اللہ ہی کو معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اب سائنس ترقی کرچکی ہے اور ہم بآسانی الٹرا سونو گرافی کے ذریعے سے جنین کی جنس کا تعین کرسکتے ہیں۔ کیا یہ آیت قرآنی میڈیکل سائنس سے متصادم نہیں؟ "
علم غیب صرف اللہ جانتا ہے :
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ قرآن کریم کا یہ دعوٰی ہے کہ صرف اللہ ہی رحم مادر میں جنین کی جنس کو جانتا ہے، اس سلسلے میں قرآن مجید کہتا ہے:
إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأرْحَامِ و (٣٤)
"بے شک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی بارش نازل کرتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہے۔ "
( سورۃ لقمان 31 آیات 34)
اس طرح کا ایک پیغام مندرجہ ذیل آیات میں دیا گیا ہے:
اللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنْثَى وَمَا تَغِيضُ الأرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِمِقْدَارٍ (٨)
" اللہ ہی جانتا ہے جو کچھ ہر مادہ پیٹ میں اٹھائے پھرتی ہے۔ اور ارحام کی کمی بیشی بھی، اور اس کے ہاں ہر چیز کی مقدار ( مقرر ) ہے۔
( سورۃ الرعد 13 آیت 8)
الٹرا سونو گرافی سے جنس کا تعین :
موجودہ سائنس ترقی کرچکی ہے اور ہم الٹرا سونو گرافی (Ultrasonography) کی مدد سے حاملہ خاتون کے رحم میں بچے کی جنس کا تعین بآسانی کرسکتے ہیں۔
قرآن اور جنین کی جنس :
یہ درست ہے کہ قرآن مجید کی اس آیت کے متعدد تراجم اور تشریحات میں یہ کہا گیا ہے کہ صرف اللہ ہی یہ جانتا ہے کہ رحم مادر میں موجود بچے کی جنس کیا ہے۔ لیکن اگر آپ اس آیت کا عربی متین پڑھیں تو آپ دیکھیں گے کہ انگریزی کے لفظ جنس (Sex) کا کوئی متبادل عربی لفظ استعمال نہیں ہوا۔ درحقیقت قرآن کریم جو کچھ کہتا ہے ، وہ یہ ہے کہ ارحام میں کیا ہے ( وَيَعْلَمُ مَا فِي الأرْحَامِ) ، اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔
* یہ آیت صرف جنین کی جنس کی طرف اشارہ نہیں کرتی بلکہ اس کا اشارہ اس طرف بھی ہے کہ رحم مادر میں موجود بچے کی فطرت کیسی ہوگی۔ کیا وہ اپنے ماں باپ کیلئے بابرکت اور با سعادت ہوگا یا باعث زحمت ہوگا؟
* کیا وہ معاشرے کے لیے باعث رحمت ہوگا یا باعث عذاب؟ کیا وہ نیک ہوگا یا بد؟
* کیا وہ جنت میں جائے گا یا جہنم میں ؟ 
ان تمام باتوں کا مکمل علم صرف اللہ ہی کے پاس ہے، دنیا کا کوئی سائنس دان، خواہ اس کے پاس کیسے ہی ترقی کے آلات کیوں نہ ہوں، رحم مادر میں موجود بچے کے بارے میں کبھی ان باتوں کا صحیح جواب نہیں دے سکے گا۔۔
( حاشیہ:
ابتدائی مراحل میں جب نطفہ اور علقہ رحم مادر میں ہوتا ہے تو کوئی سائنسدان بھی اس کا تعین نہیں کرسکتا کہ اس کی جنس کیا ہے۔ پھر آلات کے ذریعے سے معلوم کرنا تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی آپریشن کرکے کہے کہ مجھے اس کی جنس معلوم ہوگئی ہے، حالانکہ یہ اسباب کے بغیر معلوم کیے کی نفی ہے۔ اور ایسے واقعات بھی سننے میں آئے ہیں کہ ڈاکٹر کی رپورٹ کے خلاف نتیجہ نکلا ہے، یعنی ڈاکٹری رپورٹ حتمی اور یقینی نہیں۔


Saturday, August 27, 2016

24.क्या धरती चपटी है ? ( KYA ZAMIN CHAPTI HAI ?)





اعتراضات کے جوابات۔ اعتراض 
24



کیا یہ زمین چپٹی اور ہموار ہے؟
" قرآن یہ کہتا ہے کہ زمین کو تمہارے لیئے بچھونا بنا دیا گیا ہے۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ زمین چپٹی اور ہموار ہے۔ کیا یہ بات مسلمہ جدید سائنسی حقائق کے منافی نہیں؟"
اس سوال میں قرآن کریم کی سورہ نوح کی ایک آیت کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں فرمایا گیا ہے:
وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الأرْضَ بِسَاطًا (١٩)
"اور اللہ نے تمہارے لیئے زمین کو بچھونا بنایا ہے۔"
(سورۃ نوح 71 آیت 19)
لیکن مندرجہ بالا آیت کا جمہ مکمل نہیٰں، جمہ اس سے اگلی آیت میں جاری ہے جو پچھلی ایات کی وضاحت کرتا ہے۔ اس میں ارشاد ہے۔:
لِتَسْلُكُوا مِنْهَا سُبُلا فِجَاجًا (٢٠)
" تاکہ تم اس کے کشادہ راستوں پر چل سکو۔"
( سورۃ نوح 71 آیت 20)
اسی طرح کا ایک پیغام سورۃ طہٰ میں دہرایا گیا ہے:
الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الأرْضَ مَهْدًا وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلا (٥٣)
"وہ ذات جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا اور تمہارے چلنے کے لیئے اس میں راستے بنائے۔ "
( سورۃ طہٰ 20 آیت 53
زمین کی بالائی تہ یا قِشُر ارض کی موٹائی 30 میل سے بھی کم ہے اور اگر اس کا موازنہ زمین کے نصف قطر سے کیا جائے جس کی لمبائی 3750 میل ہے تو قشر ارض بہت ہی باریک معلوم ہوتا ہے۔ زیادہ گہرائی میں واقع زمین کی تہیں بہت گرم، سیال اور ہر قسم کی زندگی کے لیئے ناسازگار ہیں، قشر ارض کا ٹھوس صورت اختیار کر لینے والا وہ خول ہے جس پر ہم زندہ رہ سکتے ہیں، لہذا قرآن مجید بجا طور پر اس کو ایک بچھونے یا قالین سے مشابہ قرار دیتا ہے تاکہ ہم اس کی شاہراہوں اور راستوں پر سفر کرسکیں۔
قرآن کے مطابق زمین چپٹی نہیں :
قرآن کریم میں کوئی ایسی آیت موجود نہیں جس میں یہ کہا گیا ہو کہ زمین مستوی یا چپٹی ہے۔ قرآن صرف قشرِ زمین کو قالیین سے تشبیہ دیتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک قالین صرف قطعی ہمواز زمین ہی پر بچھایا جاسکتا ہے، حالانکہ کرہ ارض جیسے بڑے کرے پر بھی قالین بچھانا ممکن ہے اور اس کا مظاہرہ زمین کے گلوب کا ایک بہت بڑا نمونہ لے کر اور اس پر قالین بچھا کر بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ قالین بالعموم ایک ایسی سطح پر بچھایا جاتا ہے جس پر بصورت دیگر سہولت سے نہ چلا جاسکتا ہو۔ قرآن مجید قشر زمین کا ذکر بطور قالین کرتا ہے جس کے نیچے گرم، سیال اور مانع حیات ماحول پایا جاتا ہے۔ قشر زمین کی صورت میں بچھائے گئے قالین کے بغیر بنی نوع انسان کا زندہ رہنا ممکن نہ ہوتا، لہذا قرآن کریم کا بیان نہ صرف عین منطق کے مطابق ہے بلکہ اس میں ایک ایسی حقیقت بھی بیان کردی گئی ہے جسے صدیوں بعد ماہرین ارضیات نے دریافت کیا۔
کشادہ فرشِ ارضی :
قرآن کریم کی متعدد آیات میں یہ فرمایا گیا ہے کہ زمین بچھا دی گئی ہے، حکم ربانی ہے:
وَالأرْضَ فَرَشْنَاهَا فَنِعْمَ الْمَاهِدُونَ (٤٨)
" ہم نے زمین کو ( قالین کی طرح ) بچھا دیا ہے، سو ہم کیسے اچھے بچھانے والے ہیں۔ "
(سورۃ الذاریات 51 آیت 48)
اسی طرح قرآن کریم کی متعدد دوسری آیات میں زمین کو کشادہ بچھونا یا فرش کہا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے:
أَلَمْ نَجْعَلِ الأرْضَ مِهَادًا (٦)وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا (٧)
" کیا ہم نے زمین کر فرش نہیں بنایا؟ اور پہاڑوں کو ( اس میں ) میخیں ( نہیں بنایا ؟)"
( سورۃ النباء 78 آیت 6 تا 7 )
قرآن کریم کی کسی ایت میں معمولی سا اشارہ بھی نہیں کیا گیا کہ زمین چپٹی اور ہموار ہے۔ آیات سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ زمین وسیع اور کشادہ ہے اور اس وسعت و کشادگی کی وجہ بیان کردی گئی ہے قرآن عظیم میں ارشاد ہے:
يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ أَرْضِي وَاسِعَةٌ فَإِيَّايَ فَاعْبُدُونِ (٥٦)
" اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو! بے شک میری زمین بڑی وسیع ہے ، پس میری ہی عبادت کرو۔"
(سورۃ العنکبوت 29 آیت 56)
( حاشیہ : لہذا کوئی شخس یہ عذر پیش نہیں کرسکتا کہ وہ نیکی نہیں کرسکا اور وہ برائیوں کے ارتکاب پر مجبور تھا کیونکہ اس کے اردگرد کا ماحول اور حالات سازگار نہیں تھے۔ )